خاندان کے افراد کی ذمہ داری کا احساس (۲)

Thu, 06/23/2022 - 09:07
خاندان

گذشتہ روایت میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ اپنے گھر ، خاندان اور معاشرے کو خدا کی طرف اور اس کی جانب دعوت دینا ہر انسان کا اپنا ذاتی وظیفہ اور اس کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ جیسے وہ ان کے درمیان خدا کا بھیجا ہوا نمائندہ ہو جو انہیں حق کی جانب دعوت دیتا ہے اور باطل و غلط کاموں سے روکتا ہے ، حتی اگر وہ لوگ اس کی دعوت کو قبول بھی نہ کریں تو بھی اس کی ذمہ داری ختم  نہیں ہوجاتی اور وہ سبک دوش نہیں ہوسکتا جیسا کہ سائل نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس سلسلہ میں سوال کیا کہ ہم کس طرح انہیں کی حفاظت کریں ؟ تو حضرت نے فرمایا : انہیں امربالمعروف کرو اور نھی عن المنکر انجام دو ، انہیں حکم خدا کی جانب دعوت دو اور حرام سے خدا سے روکو ، سائل نے کہا کہ ہم انہیں نیکوں کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برائیوں سے منع کرتے ہیں مگر وہ ماننے کو تیار نہیں ! تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا حکم دینا اور روکنا [امر و نھی عن المنکر] تمھاری ذمہ داری تھی جو تم نے انجام دے دیا ۔ (۱)

اس میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ ضروریات زندگی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات اور تربیت کا اھتمام ، نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے منع کرنا یعنی امربالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر کرنا نیز گھر کو ہر قسم ظاھری اور باطنی آلودگیوں سے پاک و صاف اور دور رکھنا ، ماں باپ یا گھر کی ذمہ دار فرد کا وظیفہ ہے  ۔ (۲)

قران کریم نے سورہ طہ کی ۱۲۳ ویں ایت کریمہ میں بھی اھل خاندان اور فیملی ممبرس کو ایک دوسرے کے حق میں احساس ذمہ داری دلایا ہے ، خداوند نے کہا : «وَأْمُرْ أَهْلَکَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا... ؛ اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں ہم آپ سے رزق کے طلبگار نہیں ہیں ہم تو خود ہی رزق دیتے ہیں اور عاقبت صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے ۔ (۳)

اس ایت کا واضح پیغام یہ ہے کہ نماز انفرادی عبادت نہیں ہے جسے انسان اپنے پرودرگار کے لئے انجام دیتا ہے بلکہ نماز انفرادی عبادت کے ساتھ ساتھ ایک سماجی اور اجتماعی کام بھی ہے اور یہ بات ایت کے اس دو جملے « وَأْمُرْ أَهْلَکَ بِالصَّلَاةِ » اور « وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا » سے واضح ہے ، ایت کا پہلا جملہ معاشرہ کے تمام افراد کو نماز کے لئے امادہ کرنا ہے اور دوسرے جملے کا پیغام یہ ہے کہ یہ کام اسان نہیں ہے بلکہ اس راہ میں سختیاں اور پریشانیاں بہت زیادہ ہیں جس پر صبر و تحمل کے ساتھ اس دینی تحریک کو اگے بڑھا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلين ، ج 5 ، ص 372 ۔

۲: مکارم شیرازی، ناصر ، تفسیر نمونہ ، ج 24 ، ص 288 ۔

۳: قران کریم ، سورہ طه ، ایت 132 ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45