ایک مغرور انسان دنیا میں ناکام ہوتا ہے اور آخرت میں بھی خسارہ اٹھاتا ہے انسان کو چاہیے کہ اپنے مال ، سلامتئ جسم ،خاندان، ریاست اور دولت پر کبھی بھی ناز نہ کرے اس لئے کہ یہ تمام چیزیں فانی ہیں اور سب ختم ہوجانے والا ہے۔
ایک مغرور انسان دنیا میں نا کام ہوتا ہے اور آخرت میں بھی خسارہ اٹھاتا ہے انسان کو چاہیے کہ اپنے مال ، سلامتئ جسم ،خاندان، ریاست اور دولت پر کبھی بھی ناز نہ کرے اس لئے کہ یہ تمام چیزیں فانی ہیں اور سب ختم ہوجانے والا ہے۔
انسان کو کبھی اپنی خوشحالی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے اگر اس کی کچھ نفسانی خواہشات پوری بھی ہو جائیں تو اسے غرور و تکبر نہیں کرنا چاہیے بعض دفعہ یہی چیز یں مصیبت کا باعث بن جاتی ہیں۔
انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ خدا کی عبادت کرتا رہے خدا سے ڈرتا رہے اور اپنے گناہوں پر ندامت کا احساس کرے، اور ان لوگوں کے کہنے میں نہ آئے جو بظاہر خوشامد کرتے ہیں کیونکہ اس جھوٹی تعریف کی وجہ سے انسان غفلت اور غرور کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسے لوگوں کی دنیا و آخرت تباہ ہوجاتی ہے۔(تذکرۃ الحقائق 37)۔ اس ضمن میں عبرت کی خاطر کچھ واقعات نقل کیے جاتے ہیں:
1-قلبی غرور:
ایک عرصہ تک رسول خد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ کے سامنے ایک شخص کی بڑی تعریفیں کیا کرتے تھے، رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کو نہیں جانتا۔
ایک دن وہی شخص مسجد میں آیا اور صحابہ نے کہا یا رسول اللہ!یہی ہے وہ شخص جس کی ہم تعریفیں کیا کرتے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اس کے چہرے پر مجھے سیاہی دکھائی دیتی ہے جس کا تعلق شیطان سے ہے وہ شخص نزدیک آیا اور سلام کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے خدا کی قسم دے کر پوچھنا چاہتا ہوں کہ ابھی مسجد میں داخل ہونے سے پہلے تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ ان تمام لوگوں میں مجھ سے بہتر کوئی بھی نہیں ہے؟
اس شخص نے کہا: بے شک میں یہ بات سوچ رہا تھا۔ یوں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چشم بصیرت سے اس کے ذہنی اور قلبی غرور کو پہچان لیا تھا۔(1)
۲-مال و اولاد پر غرور:
عاص بن وائل کا تعلق بنی سہم سے تھا اور وہ انتہائی بے دین شخص تھا جو رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا ہر وقت مذاق اڑایا کرتا تھا وہ آپ کولفظ "ابتر" (نعوذباللہ ) کے ساتھ یاد کیا کرتا تھا ۔ابتر اسے کہتے ہیں جسے خدانے اولاد نہ دی ہو اور جس کا کوئی جانشین نہ ہو۔
وہ شخص ایک نالائق بیٹے کا باپ بھی تھا جس کا نام عمرو بن عاص تھا وہ انتہائی مکّار اور فریب کا تھا اور معاویہ کے ساتھ مل کر اس نے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی تھی۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے اس سے اپنا کچھ قرض لینا تھا میں اپنا قرض وصول کرنے کے لئے اس کے پاس گیا اور اس سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
اس نے مجھ سے کہا کہ میں تیرا قرض واپس نہیں کرتا، میں نے کہا قرض واپس نہیں کرتا تو نہ کر لیکن میں آخرت میں تجھ سے ضرور اپنا قرض واپس لوں گا۔
اس نے پورے غرور سے کہا کہ اگر بالفرض تیرے عقیدے کے مطابق قیامت کا دن قائم بھی ہوگا تو اس دن بھی میرے پاس او لا دو دولت کی بھی کثرت ہوگی تو وہاں پر بھی میرے پاس قرض وصول کرنے کے لئے آیا تو میں وہاں پر بھی تجھے قرض واپس نہیں کروں گا۔
اللہ تعالی نے رسول خدا پر یہ آیت نازل کی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ﴿٧٧﴾ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا ﴿٧٨﴾ كَلَّا ۚ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا ﴿٧٩﴾( سورة مريم)؛ کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور یہ کہنے لگا کہ ہمیں قیامت میں بھی مال اور اولاد سے نوازا جائے گا۔ یہ غیب سے باخبر ہوگیا ہے یا اس نے رحمان سے کوئی معاہدہ کرلیا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے ہم اس کی باتوں کو درج کررہے ہیں اور اس کے عذاب میں اور بھی اضافہ کردیں گے۔
3-مغرور پہلوان:
ایک پہلوان جو کہ پہلوانی کے میدان میں بہت ہی کامیاب پہلوان تھا دنیا بھر کے پہلوانوں کو شکست دے کر اسے بہت زیادہ شہرت ملی وہ اپنی قوت اور لوگوں کی خوشامد کے ذریعےغرور کرنے لگ گیا ، اور ایک دن اس نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا کہ پروردگار اب زمین کا تو کوئی بھی پہلوان مجھ سے پنجہ آزمائی نہیں کر سکتا اس لئے کہ وہ میری طاقت کے معترف ہیں اے خدا، اب تجھ سے التماس کرتا ہوں کہ تو جبرائیلؑ کو بھیج تا کہ وہ مجھ سے پنجہ آزمائی کرے۔
چند روز گزرنے کے بعد الله تعالی نے اس پر بیماری مسلط کر دی جس کی وجہ سے وہ کمزور اور ناتواں ہو گیا، اس کے گھر والے اور دوسرے لوگ بھی اس کی بیماری کے وجہ سے پریشان تھے اور آخر کار تنگ آگئے انہوں نے اسے وہاں سے اٹھا کر ایک جنگل میں جا پھینکا اس پر ضعف کا اتنا زیادہ غلبہ ہوا کہ اس کا سر زمین پر رکھا ہوا تھا اور اس کے منہ پر چوہے دوڑ رہے تھے اور کچھ چو ہے اس کی پاؤں کی انگلیوں کو کاٹنے میں مصروف تھے لیکن اس کے پاس اتنی طاقت نہ تھی جس سے وہ چوہوں کو روک سکتا۔
وہاں سے ایک صاحبِ دل بندہ گزرا، اس نے کہا دیکھ خدا نے اپنے لشکریوں میں سے ایک چھوٹے لشکر کو بھیجا تا کہ تجھے تنبیہ کی جائے کہ توغرور سے توبہ کرلے اگر تو نے استغفار کیا تو الله تعالی تجھے تیرے صبر کی وجہ سے معاف کر دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-شنیدہای تاریخ، ص378۔ محجۃ البیضاء 98/6۔
2-حکایتہای شنیدنی 157/5۔
Add new comment