خلاصہ: غرور انسان کوغلطيوں کي طرف لے جاتا ہے- انسان غرور کي حالت ميں اندھا ہو جاتا ہے اور پہاڑ کو تنکا اور تنکے کو پہاڑ تصور کرنے لگتا ہے، غرور کي عينک انسان کو حقائق کے بارے ميں اندھا بنا ديتي ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان تکبر کرتا ہے اور مال و دولت اور عزت و تعليم پر فخر محسوس کرتا ہے اور اسي جگہ پر جاپہنچتا ہے جہاں پر رسول خدا(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے زمانے ميں بعض لوگ پہنچے تھے، وہ لوگ قبروں کے اندر موجود مردوں پر فخر محسوس کيا کرتے اور انہيں اپنے غرور کا سرمايہ تصور کرتے تھے!
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غرور انسان کو غلطيوں کي طرف لے جاتا ہے- انسان غرور کي حالت ميں اندھا ہو جاتا ہے اور پہاڑ کو تنکا اور تنکے کو پہاڑ تصور کرنے لگتا ہے، غرور کي عينک انسان کو حقائق کے بارے ميں اندھا بنا ديتي ہے۔
غرور انسان کے بلند مقامات کو حاصل کرنے کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے، جس کے بارے میں حکیم لقمان اپنے بیٹے کو اس غرور اور تکبر سے بچنے کی تلقین کررہے ہیں، اس بات کی اتنی اہمیت ہے کہ خداوند متعال نے ان کی اس نصیحت کو اپنے کلام قرآن مجید میں جگہ دی: «وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّهَ لا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتالٍ فَخُورٍ[سورۂ لقمان، آیت:۱۸] اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر منہ نہ پُھلا لینا اور زمین میں غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کو پسند نہیں کرتا ہے».
غرور انسان کو خیال اور وہم کی وادی میں میں گم کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ اسی وہم اور خیال کی وادی کو ایک حقیقیت تصور سمجھنے لگتا ہے اور ایسا انسان جو وہم اور خیال کو حقیقت سمجھنے لگیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «مَنْ غَرَّهُ السَّرَابُ تَقَطَّعَتْ بِهِ الْأَسْبَاب[۱] جو لوگ سراب سے مغرور ہوجاتے ہیں اس سے اسباب ٹوٹ جاتے ہیں».
انسان کے وجود میں ایسے اخلاق خدا نے رکھے ہیں کہ انسان ان اخلاق کی بناء پر خدا کی سب سے زیادہ اچھی مخلوق(اشرف المخلوقات) بن سکتا ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے راستے کو انتخاب کرے جن کے بارے میں خداوند متعال نے حکم دیا ہے، اور ان میں سے کچھ یہ ہیں کہ انسان اپنے خالق اور اس کے مخلوق کے ساتھ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے جو خیال اور وہم سے دوری کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔
بلند مقامات صرف اور صرف تواضع اور انکساری کے سایہ میں حاصل ہوتے ہیں، اور انسان متواضع اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے غرور اور تکبر کو کچل دے، جب تک انسان اندر غرور اور تکبر جیسی صفات موجود رہینگے وہ کبھی بھی بلند مقامات کو حاصل نہیں کرسکتا جس کے بارے میں شاعر اس طرح لکھتے ہیں:
روز دیوار میں چن دیتا ہوں میں اپنی انا روز وہ توڑ کے دیوار نکل آتی ہے،
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔
اگر ہم کو تواضع اور انکساری کو دیکھنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی کو دیکھنا ہوگا جن کی زندگی کا ہر لمحہ تواضع اور انکساری سے بھراہوا ہے یہاں تک کہ اگر آپ کسی جگہ پر لوگوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے اور اگر کوئی ایسا شخص جو آپ کو نہیں پہچانتا ہو وہ اس مجلس میں داخل ہوجائے تو وہ آپ کو پہچان نہیں سکتا تھا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کون ہے: «اَیُّکُم رَسول اللّه[۲] تم میں سے اللہ کا رسول کون ہے؟».
غرور صرف اس دنیا کی زندگی کے اسباب کو ختم نہیں کرتا ہے بلکہ وہ معنوی اور اخروی اسباب کے ختم ہونے کا بھی سبب بنتا ہے جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں:«لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ[۳] ایمان اس شخص کے دل میں داخل نہیں ہوتا جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبر ہو».
نتیجہ:
غرور اور تکبر کے مذمت میں بہت زیادہ آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں، جن کا ماحصل یہ ہے کہ متکبر اور مغرور انسان کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، تکبر اور غرور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس شخص سے اس کے غرور کی وجہ سے ملنا تک پسند نہیں کرتا۔
--------------------------------------
حوالے:
[۱] تصنیف غرر الحكم و درر الكلم، عبد الواحد بن محمد، ص۱۳۶، دفتر تبلیغات، ایران، قم، ۱۳۶۶ش.
[۲] بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۷۳، ص۳۵۵، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
[۳] گذشتہ حوالہ، ج۷۰، ص۲۱۵۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان کے وجود میں ایسے اخلاق خدا نے رکھے ہیں کہ انسان ان اخلاق کی بناء پر خدا کی سب سے زیادہ اچھی مخلوق(اشرف المخلوقات) بن سکتا ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے راستے کو انتخاب کرے جن کے بارے میں خداوند متعال نے حکم دیا ہے، اور ان میں سے کچھ یہ ہیں کہ انسان اپنے خالق اور اس کے مخلوق کے ساتھ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے جو خیال اور وہم سے دوری کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔
اگر ہم کو تواضع اور انکساری کو دیکھنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی کو دیکھنا ہوگا جن کی زندگی کا ہر لمحہ تواضع اور انکساری سے بھراہوا ہے یہاں تک کہ اگر آپ کسی جگہ پر لوگوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے اور اگر کوئی ایسا شخص جو آپ کو نہیں پہچانتا ہو وہ اس مجلس میں داخل ہوجائے تو وہ آپ کو پہچان نہیں سکتا تھا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کون ہے: «اَیُّکُم رَسول اللّه؛ تم میں سے اللہ کا رسول کون ہے؟»(بحار الانوار، ج۷۳، ص۳۵۵).
غرور صرف اس دنیا کی زندگی کے اسباب کو ختم نہیں کرتا ہے بلکہ وہ معنوی اور اخروی اسباب کے ختم ہونے کا بھی سبب بنتا ہے جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں:«لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ؛ ایمان اس شخص کے دل میں داخل نہیں ہوتا جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبر ہو»(بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۷۰، ص۲۱۵).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
گذشتہ حوالہ، ج۷۰، ص۲۱۵۔
Add new comment