حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا روزہ داری کے سلسلہ میں ارشاد ہے کہ «مَنْ أَفْطَرَ يَوْماً مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ خَرَجَ رُوحُ الْإِيمَانِ مِنْه؛ اگر کوئی بغیر کسی عذر اور مجبوری کے ماہ مبارک رمضان کا روزہ نہ رکھے تو اس سے ایمان کی روح جدا ہوجاتی ہے » (۱)
ہر زندہ موجود اس وقت تک زندہ اور با حیات ہے جب تک اس کے بدن میں روح موجود ہے اور اگر بدن سے روح نکل جائے تو معمولا اس کی بازگشت بھی ناممکن ہے ، ایمان کا بھی ایک ظاھر ہے اور وہ انسان کا مسلمان یا مومن ہونا ہے اور اس کا ایک باطن اور اس کی روح ہے ، روایت میں موجود ہے کہ جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنا اور ماہ مبارک رمضان میں کھانے پینے کو مباح سمجھنا اس قدر بڑا ہے کہ ایمان کا جسم بے جان و روح ہوجاتا ہے اور معمولا اس روح کے واپس لوٹنے کی بھی کوئی امید نہیں ہے کہ جس بنیاد پر انسان دوبارہ حقیقی مومن بن سکے ، لہذا ایسے انسان کا فقط ظاھر مومنوں جیسا ہے مگر اس کے اندر ایمان کی مہک اور خوشبو موجود نہیں ہے ، ہماری اس بات کی دلیل روزہ واجب ہونے کی وہ حکمت ہے جس کا تذکرہ معصوم اماموں نے کیا ہے کہ روزہ سچے اور مخلص ایمان دار اور غیر مومن کے درمیان خط امتیاز ہے ۔
امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ «فرض الله... الصِّيَام ابْتِلَاءً لِإِخْلَاصِ الْخَلْق؛ خداوند متعال نے روزہ واجب کیا تاکہ اس کے وسیلہ لوگوں کے اخلاص کو آزما سکے » (۲) اور جب بھی لوگ اس میدان میں ناکام رہیں گے تو ان کے ایمان و اخلاص پر شک کیا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شیخ صدوق، من لا يحضره الفقيه ج ۲، ص ۱۱۸، ح ۱۸۹۲
۲: شريف الرضی، محمد بن حسين ، نهج البلاغه (صبحی صالح)، ص ۵۱۲
Add new comment