(ماه رمضان میں روزانہ مختصر تفسیر)
ایات ۱۰و۱۱
وَسَوَاءٌ عَلَیْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا یُؤْمِنُونَ ﴿١٠﴾ إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمَنَ بِالْغَیْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ کَرِیمٍ ﴿١۱﴾ إِنَّا نَحْنُ نُحْیِی الْمَوْتَى وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَکُلَّ شَیْءٍ أحْصَیْنَاهُ فِی إِمَامٍ مُبِینٍ ﴿١۲﴾
تفسیر:
الذکر سے مراد قرآن مجید ہے جیسا کہ سورۂ حجر کی ۹ ویں آیت میں ہے «اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنّا لَهُۥ لَحافِظُونَ».
اور خشی الرحمٰن بالغیب سے مراد یا اندر سے خدا سے ڈرنا ہے یا یہ عبارت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ مقامات پر خدا سے ڈرنے کے معنی میں ہے یا اس سے مراد قیامت میں خدا وند عالم کی عدالت سے ڈرنا ہے اس لئے کہ وہ غیب سے با خبر ہے ۔
جب کہیں کوئی انسان کسی بڑی شخصیت کے مقابلے میں قرار دیا جاتا ہے تو اس کی ہیبت اور شخصیت کی وجہ سے انسان پر ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے جسے خشیت کہتے ہیں اور یہ خوف عذاب اور سزا کی بنیاد پر پیدا ہونے والی کیفیت سے الگ ہوتی ہے ۔
سیاہ دل انسان کے لئے وعظ و نصیحت کا کیا فائدہ اس لئے کہ لوہے کہ کیل کبھی پتھر کے اندر نہیں جاتی «سَواءٌ عَلَیْهِمْ...» ۔
قرآن مجید یاد دہانی کا ذریعہ ہے اور اس کی پیروی بھولی ہوئی چیزوں کے یاد کرنے کا موقع و ذریعہ اور انسان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگانے کا ذریعہ ہے «اتَّبَعَ الذِّكْرَ» ۔
خدا کا خوف وجود کے اندر سے اور تنہائی میں ہوتو زیادہ اہم ہے لوگوں کے سامنے خوف الٰہی کا اظہار کرنا اہم نہیں ہے « خَشِیَ الرَّحْمنَ بِالْغَیْبِ» ۔
« وَکُلَّ شَیْءٍ أحْصَیْنَاهُ فِی إِمَامٍ مُبِینٍ » کچھ مفسرین نے امام مبین سے مراد لوح محفوظ کو لیا ہے قرآن مجید میں اسے ام الکتاب کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، اور چونکہ تمام لوگ اور تمام چیزیں انہیں معین امور کی تابع ہیں جو اس میں لکھی ہوئی ہیں لھذا اس کو امام کہتے ہیں البتہ حدیث ثقلین کی روشنی میں ائمہ اھل بیت علیھم السلام اور ان میں سر فہرست مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام امام مبین کا واضح مصداق ہیں ۔
انسان کا نامۂ اعمال اس کی موت کے بعد قیامت تک کھلا رہتا ہے «نَكْتُبُ... وَءاثارَهُمْ» صرف اعمال ہی نہیں بلکہ اعمال کے اثرات بھی محفوظ کئے جاتے ہیں اور قیامت میں ان کا بھی حساب ہوگا «نَكْتُبُ ما قَدَّمُوا وَءاثارَهُمْ».چاہے وہ نیک آثار ہوں جیسے وقف ، صدقۂ جاریہ لوگوں کو علم سکھانا یا برے اثرات جیسے فحشیات کے مراکز قائم کرنا وغیرہ ۔
انسان صرف اپنے اعمال کا ضامن نہیں ہے بلکہ اس کے نتائج کا بھی ذمہ دار ہے «وَءاثارَهُمْ» ، خداوند عالم کے حساب و کتاب کے مسائل بہت دقیق ہیں«َكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْناهُ» ۔
انتخاب و ترجمہ
سید حمیدالحسن زیدی
مدیرالاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع:
قرائتی، محسن، تفسیر نور ، ج ۷ (تفسیر سورہ یاسین)
Add new comment