سوره انفال وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں لفظ انفال استعمال ہوا ہے اور انفال کے احکام بیان ہوئے ہیں اس سورت کا دوسرا نام "بدر" ہے اور اس سورت میں غزوہ بدر کی طرف مفصل اشارہ ہوا ہے بعض مفسرین کے مطابق یہ سورت جنگ بدر کے دوران ہی اس وقت نازل ہوئی جب جنگی غنائم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات ابھرے تھے۔
سوره انفال کا مختصر جائزه:سوره انفال وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں لفظ انفال استعمال ہوا ہے اور انفال کے احکام بیان ہوئے ہیں اس سورت کا دوسرا نام "بدر" ہے اور اس سورت میں غزوہ بدر کی طرف مفصل اشارہ ہوا ہے بعض مفسرین کے مطابق یہ سورت جنگ بدر کے دوران ہی اس وقت نازل ہوئی جب جنگی غنائم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات ابھرے تھے یہ سورت مدنی ہے کوفہ کے قراء کے مطابق اس سورت کی آیات کی تعداد 75، بصری قراء کے مطابق 76 اور شامی قراء کے مطابق 77 ہے البتہ پہلا قول زیادہ مشہور اور صحیح ہے اس سورت کے الفاظ کی تعداد 1244 اور اس کے حروف کی تعداد 5388 ہے مصحف کی کتابت یا جمع قرآن کی ترتیب کے لحاظ سے آٹھویں اور ترتیب نزول کے لحاظ سے اٹھاسی ویں سورت ہے۔
مضامین
سوره انفال چند فقہی احکام پر مشتمل ہے۔انفال اور عمومی وسائل اور ثروتوں اور ان کے مصرف و استعمال سے متعلق احکام؛خمس کے احکام اور اس کا استعمال؛جہاد کے آداب، مجاہدین کے فرائض، جنگی قیدیوں کے ساتھ برتاؤ،عہد و پیمان منعقد کرنے اور اس کی پابندی،جنگی تیاریوں کی اہمیت،مؤمن کے علائم اور نشانیاں اور اس کی روحانی اور اخلاقی صفات و خصوصیات اور ان ہی موضوعات میں دوسرے مسائل نیز دیگر مختلف مسائل و موضوعات[1]۔
فضیلت اور خواص
سورہ انفال کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ہے۔ «جو سورہ توبہ کی تلاوت کرے میں قیامت کے دن اس کا شفاعت کرنے والا اور گواہ بنوں گا کہ وہ نفاق سے دور ہے اور دنیا کے تمام منافق مرد اور عورتوں کی تعداد کے دس برابر حسنہ اسے دیے جائیں گے اور دس برابر گناہ معاف ہونگے اور دس درجات اس کے بلند ہونگے اور عرش اور اس کے فرشتے اس کی زندگی میں اس پر درود بھیجیں گے۔[2]» امام صادق(ع) سے بھی منقول ہے کہ جو کوئی سورہ انفال اور سورہ توبہ کی تلاوت کرے، اس کے دل میں نفاق داخل نہیں ہوگا اور حساب کتاب سے نجات یافتہ شیعوں میں سے شمار ہوگا[3]۔
تفسیر برہان میں اس سورت کی تلاوت کی خواص میں؛ دشمن پر برتری اور قرض کی ادائیگی ذکر ہوئی ہے[4]۔ہر مہینے میں اس سورت کی تلاوت کو مستحب مؤکد قرار دیا گیا ہے[5]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1238۔
[2] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۷ش، ج۵، ص۶۔
[3] ابن بابویه، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۶، ص۲۳۷.
[4] بحرانی، تفسیرالبرهان، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۶۳۹.
[5] کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۴۷۱
Add new comment