اسلامی فلسفہ کا روشن پہلو اور نظریۂ علم  کی تاریخ

Mon, 03/28/2022 - 18:48
نظریۂ علم

اسلامی فلسفہ ایک محکم اورپائدار مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے اور کبھی بھی عدم استحکام،انتشار اور بحران کی زد میں نہیں آیا اگرچہ اس کے ارد گرد کچھ مخالف رجحانات پیدا ہوئے ہیں جو کبھی کبھی اسلامی فلسفہ میں الجھاؤ کا سبب بھی بنے ہیں لیکن ان کا مابعد الطبیعیات سے تعلق رکھنے والے امور میں عقل کی اصالت پر مبنی دوٹوک موقف اپنی جگہ قائم رہا ہے اور اس سلسلے میں نہ تو انہوں نے حسی تجربات کو کم اہمیت قرار دیا اور نہ ہی طبیعی علوم [نیچرل سائنس] میں تجربہ کے استعمال کی اہمیت سے انکار کیا ہے اور نہ اس امر پر تاکید کی ہے کہ فلسفی مسائل میں فقط تعقلی طریقہ ہی اختیار کیا جائے اور مخالف فکروں سے ٹکراؤ اور تنقید کرنے والوں سے مسلسل کشمکش اور مناظروں نے اسلامی فلسفہ پر ضعف اور سستی طاری ہونے کے بجائے اس کی قوتوں میں مزیداضافہ کیا ہے فلسفہ کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں غالبا دو نقطۂنظرکی نمایندگی میں ظاھرہوتی رہی ہیں ایک گروہ وہ ہےجو اپنے زمانے میں رواج یافتہ بعض فلسفی نظریوں کو قرآن و سنت کے ظواہر سے ناموافق سمجھتے تھے اور اس خوف سے اس کی مخالفت کرنےلگے کہ کہیں  ان افکار کی توسیع لوگوں کے مذہبی عقاید کو کمزور نہ بنادے، اور دوسراگروہ عرفانی ذوق رکھنے والوں کا تھا جو روحانی سفر کی اہمیت پر زور دیا کرتے تھے جبکہ عرفان الٰہی فلسفہ کےکبھی بھی متناقض نہیں رہا ہے بلکہ ہمیشہ اس نے فلسفہ کی مدد کی ہے لیکن آج موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں مغربیوں کے نظریئے ہماری ثقافتی انجمنوں میں نفوذ کررہے ہیں اور الٰہی فلسفہ کے بہت سارے مسلم حقائق پر سوال اٹھارہے ہیں ایسے موقع پر فلسفی مسائل پر کسی قسم کا پہرہ نہیں بٹھایا جاسکتا۔

نظریۂ علم  کی تاریخ فلسفی علوم کی ایک شاخ ہونے کے عنوان سے کوئی زیادہ پرانی  نہیں ہے اور شناخت کے اقداری ہونے کا مسئلہ فلسفی مسائل میں مرکزکی حیثیت رکھتا ہے ،جو قدیم زمانہ سے فلسفی گفتگو میں کم وبیش موجود رہا ہے  ،دانشور حضرات عقلی مسائل میں اختلاف اور اپنی فکروں اور نظریوں کی تائید یا اثبات میں متناقض دلیلوں کو پیش کرنے لگے جس کی وجہ سے  سفسطہ گروں کوموقع مل گیا کہ وہ عقلی ادراکات کاانکار کریں اور اس بابت وہ اس حد تک افراط کا شکار ہوگئے کہ بیرونی حقیقتوں کاسرے سے انکارکر بیٹھے یہاں تک کہ ارسطو نے دلیلوں کو پرکھنے اور تولنے اور صحیح فکر کرنے کے لئے منطقی قواعد وضوابط کی جمع آوری کی  یہاں تک کہ مارکسسٹوں نے مدتوں ان منطقی قواعد کی مخالفت کی یورپ میں شک کی طرف دوبارہ رجحان پیدا ہونے لگا اور نشاۃثانیہ  کے بعد تجربی علوم میں پیشرفت آنے لگی نظریۂ علم کے سلسلے میں منظم تحقیق یورپ میں سب سے پہلے لائبنیز اور انگلینڈ میں جان لاک کے ذریعہ انجام پائی جان لاک کی تحقیقیں بار کلے اور ھیوم کی تقلید میں انجام پانے لگیں یہاں تک کہ جرمن کا مشہور و معروف فلاسفر کینٹ جس کا شمار عقل پسندوں  میں ہوتا تھا وہ بھی ھیوم کے افکار سے متأثر ہوگیا کینٹ کی نظر میں فلسفہ کا اہم ترین فرض شناخت  کی اہمیت اور عقلی  قوت کے اقدار کااندازہ لگاناہے لیکن اس نے عقل نظری کے ادراکات  کو صرف تجربی اور ریاضی علوم میں محدود  سمجھایہ وہ پہلا حملہ تھا جو کسی عقل پسند کی جانب سے مابعد الطبیعہ پر کیا گیا۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 94