ہمیں یقین کرنا چاہیئے کہ ابھی تک ہم اس خیرات و برکات سے واقف ہی نہیں ہیں جو آپ کے ظہور کے بعد عالم ہستی میں واقع ہونے والے ہیں اور ہم جانتے ہی نہیں کہ اس یوسفِ گم گشتۂ عالم کے کفایت شعار ہا تھوں تمام نیکیاں و خیرات و برکات و کمالات و خوبصورتی انسان کو بطور تحفہ ملنے والی ہیں اور حضرت کے ظہورِ مسعود پر انسان کو ایمان و آسائش اور امن و امان کا ایسا تحفہ ملنے والا ہے جس کے تصور سے بھی ذهن انسان عاجز ہے۔
ہمیں یقین کرنا چاہیئے کہ ابھی تک ہم اس خیرات و برکات سے واقف ہی نہیں ہیں جو آپ کے ظہور کے بعد عالم ہستی میں واقع ہونے والے ہیں اور ہم جانتے ہی نہیں کہ اس یوسفِ گم گشتۂ عالم کے کفایت شعار ہا تھوں تمام نیکیاں و خیرات و برکات و کمالات و خوبصورتی انسان کو بطور تحفہ ملنے والی ہیں اور حضرت کے ظہورِ مسعود پر انسان کو ایمان و آسائش اور امن و امان کا ایسا تحفہ ملنے والا ہے جس کے تصور سے بھی ذهن انسان عاجز ہے۔ مندرجہ ذیل روایات پر غور کیجئے:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :
مہدی کے زمانے میں میری امت ایسی نعمتوں سے بہرہ مند ہوگی جس کی نظیر نہ دیکھی گئی ہو گی۔[1]
میں تم کو مہدی کی بشارت دیتا ہوں جو لوگوں کی طرف بھیجا جائے گا اور زمین و آسمان میں رہنے والے اس سے راضی و خشنود رہیں گے۔[2]
تمام امتیں اس کے زیر پناہ آجائیں گی جیسے کہ شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ کا پناہ حاصل کرتی ہیں ۔ وہ عدالت کو پوری دنیا میں حکمراں کردے گا یہاں تک کہ صدر اسلام کی اس میں چمک دمک واپس آجائےگی۔ وہ کسی سوئے ہوئے کو جھنجوڑ کر نہیں اٹھائے گا ک کا ناحق خون نہیں بہائے گا۔[3]
لوگوں کے دلوں کو عبادت و اطاعت سے آشنا کرائے گاعدالت کا دامن ہر جگہ پھیلا ہو گا۔ خدا اس کے ذریعہ جھوٹ کا قلعہ قمع کر دے گا۔ درندگی و ستمگری کی خُو فنا ہو جائےگی اور ذلت و خواری کا طوق لوگوں کی گردن سے نکال پھینکا جائے گا۔[4]
کوئی بھی فقیر نہیں ر رہے گالوگ صدقہ دینے کیلئے ضرورت مند ڈھونڈھیں گے مگر پانہ پائیں گے جسکو بھی کچھ پیش کرنا چاہیں گے وہ کہے گا میں ضرورت مند نہیں ہوں۔[5]
پرندے اپنے آشیانوں میں چہچہا رہے ہوں گے مچھلیاں پانی میں اٹھکیلیاں کرتی ہوں گی سوکھے چشمے ابل پڑیں گے اور زمین کی پیداوار دوگنی ہو جائے گی۔[6]
زمین و آسمان میں رہنے والے اس سے عشق کر یں گے آسمان سے بارش زیادہ برسے گی زمین اپنے سبز وں کی ہریالی ہر جگہ پھیلائے ہوگی یہاں تک کہ زندہ لوگوں کی آرزو ہوگی اے کاش کہ گزشتہ لوگ زندہ ہو جاتے اور اس عدالت کا مشاہدہ کرتے۔[7]
آسمان سے بارانِ رحمت کا نزول رہے گا، زمین کے اندر کوئی بھی دانہ یوں ہی باقی نہ رہے گا اور ہر چیز اُگ آئے گی ،اُس روز دولت کی بارش ہر ایک پر رہے گی ،کچھ یوں کہ ہر کوئی جو کہے گا اے مہدی ! مجھے عطا کیجیئے ؟ تو اس سے کہا جا گا!جو چاہتے ہولے لو۔[8]
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام :
جب میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کا ظہور ہو گا تو لوگوں کے امور میں ایسی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی کہ مُردے بھی ایک دوسرے کے دیدار کو جائیں گے اور اس کے ظہور کا مثردہ ایک دوسرے کو سنائیں گے۔[9]
اس زمانے میں بارش خوب ہو گی زمین اپنے سبزے کو آشکار کر دےگی دلوں سے کینہ توزی غائب ہو جائےگی درندے اور جانور گھل مل کر رہیں گے اس طرح کہ ایک عورت بھی اگر چاہے تو عراق سے شام تک کا سفر پیدل طئے کرتی چلی جائے اور اس دور دراز کے راستے میں جو کہ آبادی سے بھر پور ہو گی اس کے قدم زمین سے اگنے والی گھاس پر ہی پڑیں گے باوجود یہ کہ اس کی زینت کے سامان اس کے سر پر رکھے ہوں کوئی بھی درندہ اس پر حملہ نہیں کرےگا اور وہ اس امن وامان سے بھرے راستے میں دل میں کوئی خوف و خطر لائے بغیر راستہ طے کرتی چلی جائےگی۔ [10]
امام صادق علیہ السلام :
جس وقت مہدی ظہور فرمائیں گے وہ پیراہن جو امیر المومنین علیہ السلام کے پیراہن کی طرح ہو گازیب تن کریں گے اور سختی کے ساتھ آنحضرت(ص) کی سیرت پر عمل فرمائیں گے۔[11]
بعض روایات میں آیا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی تشریف آوری کی برکت اور آپ کی سیرت و روش سے لوگ فقروفاقہ سے نجات پا جائیں گے اور دنیوی دولت سے بے نیاز ہو جائیں گے ۔ حضرت لوگوں سے فرمائیں گے :
آؤ! یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم اپنے رشتہ داروں سے جھگڑتے تھے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور احکام کی حرمت کو پامال کرتے تھے اور اس چیز کو کہ جس کو خدا نے حرام قرار دیا تھا اس کے متر کب ہوتے تھے۔
اس کے بعد اتنی دولت و ثروت لوگوں کو عطا کریں گے کہ دنیا میں اتنی دولت ان کو کسی نے نہ دیا ہو گا۔[12]
وہ نکتہ جو صحیح ترین روایات سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے زمانۂ ظہور میں تمام بیماروں کو شفا حاصل ہو جائےگی اور اندھے بینا ہوجائیں گے بارش بہ قدر مناسب برسے گی کہ کوئی بھی زمین اس کرہ ارض پر باقی نہ رہے گی مگر کہ وہ گل بوٹے سے سر سبز و شاداب رہے گی گویا کہ ایک سبز محفل سے زمین آراستہ و پیراستہ رہے گی تمام درخت میوه دار ہوجائیں گے۔
جسم صحیح و سالم اور عمر طولانی ہو کر سو سال سے بھی زیادہ کی ہو جائے گی ایّام و سال کے اوقات دس گنا زیادہ طویل ہوجائیں گے،کسان اپنی کھیتی سے زیادہ سے زیادہ غلّہ حاصل کریں گے، کینہ ہر دل سے دور رہے گا اور لوگ ایک دوسرے پر مہربان ہو جائیں گے، نہ یہ کہ صرف عقلِ انسانی کامل ہو جائے گی بلکہ حیوانات سے بھی درندگی سرزد نہیں ہو گی یہاں تک کہ بھیڑ اور بھیڑ یا گائے اور شیر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی بسر کریں گے، دولت اس قدر فراواں ہو جائے گی ، حرص و ہوس ،طمع لالچ اس طرح ختم ہو جائےگا کہ صدقہ دینے کیلئے کوئی فقیر بھی نہ ملے گا۔
بچے سانپ اور بچھو سے کھیلیں گے اور ان کی طرف سے ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی تمام برائیاں ختم ہو جائیں گی اور تمام لوگ خلوص دل
کے ساتھ خداوند متعال کی عبادت کریں گے اور کسی کو اسکے ساتھ شریک قرار نہیں دیں گے۔
تمام جغرافيائی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی اور ہر کرّۂ زمین ایک حکومت و قانون کے زیر نگرانی ہو گا جو شخص جب چاہے گا مشرق و مغرب میں جہاں چاہے بغیر پابندی کے سفر کرنے پر قادر ہو گا کوئی بھی اس کو منع کرنے والا نہ ہو گا اور کیونکر ایسانہ ہو گا ؟ کیا اللہ نے تمام موجودات و کائنات کو اس گھرانے کے صدقے میں خلق نہیں کیا ہے؟ حدیث کساء میں ہم قول خداوند پڑھتے ہیں۔
اے میرے فرشتوں اور اے آسمان کے ساکنوں!بہ قسم میں نے آسان کا شامیانہ نہیں لگایا اور نہ زمین کا فرش بچھایانہ چمکتے چاند اور درخشندہ ستارے نہ گھومتے فلک نہ بہتے دریا نہ ان میں چلتی کشتیوں کو پیدا کیا مگر یہ کہ ان کی محبت میں پیدا کیا۔[13]
اس نکتے کی یاد دہانی بھی لطف سے خالی نہیں ہے کہ روایات کے مطابق دنیا میں جو بھی خونریزیاں ہوں گی وہ زیادہ تر ظہور سے پہلے ہوں گی کہ جو ظاہراً انسان کی اپنی ہی مُسلّط کردہ جنگ کی وجہ سے ہوں گی جس میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں آپس میں مل کر ایک دوسرےکو تباہ و برباد کریں گی۔ جیسا کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :
قیام قائم( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے پہلے ایسا کشت و خون ہو گا جو ایک لمحے کیلئے بھی نہیں تھمے گا۔
البتہ ہم آنحضرت کے شمشیر کے ساتھ قیام کا انکار نہیں کرتے کیونکہ متعدد روایات میں اس امر کی تاکید آئی ہے لیکن یہ بات حتمی ہے کہ امام عصر ارواحنا فداہ کی تیغِ ذوالفقار اور حضرت کی قوت قهر یہ اُن لوگوں پر ٹوٹ کر برسے گی جنہوں نے مسلسل عدالت کا گلاگھونٹا ہے اور بے در یخ مظلومین و بے سہارا افراد کا خون بہایا ہے اولیاء الٰہی پر کفر و عناد کی تلوار چلائی ہے کہ جو تلوار کی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سمجھتے ہی نہیں۔
اس پر کوئی دلیل موجود نہیں کہ عوام الناس جو گلیوں اور کوچوں میں پھرتے رہتے ہیں اپنی روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور طلب معاش میں زحمت اٹھاتے رہتے ہیں اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے چاہے غفلت کی بنا پر پانا واقعیت کی وجہ سےیا کسی فریب میں آکر جب کہ خدایا اولیاء خدا کے مقابلے میں آنے کا قصد بھی نہ ہو تو ایسے افراد بھی ظہور امام سے وحشت و ہراس میں پڑ جائیں گے اس پر کوئی دلیل نہیں ملتی۔ اس لیے حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد نہ صرف یہ کے شیعوں کی اکثریت آنحضرت کا استقبال کرے گی بلکہ دنیا کے زیادہ تر افراد اپنی پاک فطرت اور آنحضرت کی سیرت و روش و خصلت کے مشاہدے کے بعد آپ کی طرف راغب ہو جائیں گے اور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
واضح سی بات ہے کہ حضرت کے نام نامی سے شرک و کفر و نفاق میں ڈوبے افراد ہی لرزتے ہیں اور آپ کے ظہور سے ہراساں ہیں جیسا کہ بنی عباس کے حکمراں (بالکل ویسے ہی کہ جیسے فرعون ولادت موسیٰ علیہ السلام سے خوفزدہ تھا) گیار ہویں امام علیہ السلام پر پابندیاں عائد کر کےاور آپ کو آپ کے ہی گھر میں نظر بند کر کے اپنے خیال خام میں امام موعود کو دنیا میں نہ آنے دینے اور اس فرزندِ آسمانی کی شہادت پر آمادہ تھے۔
آئمہ کرام علیہم السلام کی روایات میں مختلف تعبیرات کے ساتھ "امر جدید "کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کو امامؑ ظہور کے بعد اپنے ساتھ لے کر آئیں گے یہ اس بات کی وضاحت کر تا ہے کہ ابھی تک حقیقی اسلام لوگوں تک پہنچا ہی نہیں ہے۔
اگر کوئی معلّم کسی کلاس میں کسی سبب کی بنا پر نہ آئے اور اپنی کتاب کی تدریسں نہ کرے تو کیا یہ بات صحیح ہو گی کہ جب وہ دوبارہ کلاس میں تدریس کے لیے آئے تو اس درس اور سبق کا امتحان لے جس کو اس نے پڑھایا ہی نہیں ہے ؟ کیا مہربان ترین معلّمِ بشریت کہ جو ہر ایک کی نجات و ہدایت اور تربیت انسانی کے لیے ظاہر ہونے والا ہے اس سے ایسے عمل کی توقع کی جاسکتی ہے ؟
یہ بات صحیح ہے کہ امام علیہ السلام ظلم و ستم کےسر برائیوں اور اس ظلمت کے بانیوں سے سختی کے ساتھ باز پرس کریں گے لیکن لوگوں کی وہ اکثریت جو ان ناہنجاروں کے ظلم میں قربانی بن گئے ہیں امام علیہ اسلام انکو ہدایت کی تلقین فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] منتخب الاثر: 473۔
[2] جامع احادیث الشیعہ: ا/ ۳۴
[3] منتخب الاثر: 478۔
[4] بحار الانوار: 1/104۔
[5] مسند احمد:2-52۔
[6] بحار الانوار:52/304۔
[7] التشریف بالمنن: 146۔
[8] عقد الدّرر: ۱۹۵۔ باب7۔
[9] کمال الدین:۲/653۔(باب ۵۷ ج 17) اس حدیث کا مطلب آج کے آرٹیفیشل ہوشمندی اور وائی فائی کے دور میں بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
[10] مکیال المکارم: ۱/۱۰۱۔
[11] بحار الانوار: 47-54۔ کافی: 1/411۔
[12] غیبت نعمانی: ۳۳۲۔
[13] ملحقات مفاتیح الجنان، حدیث کساء ۔بحار الانوار -۵۲-۱۵۴۔
Add new comment