چکیده:ظہور حضرت مهدی (عج) کی علامات
عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال :خمس قبل قیام القائم علیہ السلام :الیمانی والسفیانی والمنادی ینادی من السماء وخسف بالبیداء وقتل النفس الزکیۃ[1]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:کہ قائم آل محمد (ع)کے ظھور سے پہلے پانچ حادثے رونماء ہونگے یمن کے لوگوں میں سے ایک انقلابی مرد کی تحریک ،سفیانی کا خروج ،آسمانی فریاد کہ جو ہر جگہ سنی جائے گی بیداء میں زمین کا دھنس جانا اور پاک دامن انسان کا قتل۔
1. سفیانی کا خروج: امیرالمومنین علیہ السلام سفیانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
یخرج ابن آکلۃ الاکباد من الوادی الیابس و ھو رجل ربعۃ وحش الوجہ ضخم الھامۃ بوجھہ اثر جدری اذا رایتہ حسبتہ اعور اسمہ عثمان وابوہ عنبسۃ وھو من ولد ابی سفیان حتی یاتی ارضا ذات فرار ومعین فیستوی علی منبرھا[2]
جگر خوار عورت کابیٹا خشک صحرا (وادی یابس )سے خروج کرے گا اس کے چھار شانہ ہیں وحشتناک چہرے والا ہوگا اور بزرگ چہرے والا ہوگا جب اس کے چہرے کودیکھوگے اس کو ایک آنکھ والا دیکھو گے اس کا نام عثمان بن عنبسہ ہے وابوسفیان کی اولاد میں سے ہوگا اس کا خروج جاری رہے گا یہاں تک کہ کوفہ اور دجلہ کے کنارے پر قبضہ کرلے گا اس کے بعد وہیں پر اپنی سلطنت کا تخت قائم کرے گا ۔
روایت سے واضح ہوتا ہے ہے کہ :ظہور سے پہلے ابو سفیان کی نسل سے شام کے ایک منطقہ سے یہ شخص خروج کرے گا ظاہری طور پر دیندار ہو گا اور اکثر مسلمانوں کو فریب دے گا مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرے گا اور ان جگہ پر اس کا قبضہ ہو گا : شام، حمص،فلسطین،اردن ،قنسرین، عراق میں کوفہ اور نجف میں قتل عام کرے گا شیعوں کو قتل کرنےکے لیے انعامات مقرر کرے گا ۔
پھر امام (عج) کا ظہور ہو گا اسے پتہ چلے گا اور یہ جنگ کے لیے اپنے لشکر کو لے کے آئے گا مکہ اور مدینہ کے درمیان بیداد نام کی جگہ پر جنگ ہو گئ اور اس کا لشکر تباہ ہو جائے گا ۔[3]
2. سرزمین بیداء کا دھنس جانا: بیداء مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جہاں پر خداوند متعال کے حکم سے سفیانی لشکر زمین میں دھنس جائے گا ۔[4]
3.یمانی کا خروج:یمن کا ایک سردار قیام کرے گا جو حق اور عدالت کی دعوت دے گا اس کا ذکر بہت روایات میں آیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خراسانی ،سفیانی اور یمانی کا قیام ایک ہی سال ایک مہینے اور ایک ہی دن محقق ہو گا اور فرمایا : ان کا خروج امام زمانہ (عج) کے ظہور کی حتمی علامات میں سے ہے ۔ [5]
4. نفس زکیه کا قتل: نفس زکیه یعنی ایسا پاک انسان جو کسی بھی گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو ہر قسم کے جرم سے پاک ہو ۔
یہ شخص حضرت مہدی (عج) سے مخلص ہو گا اور ان کے ظہور کے لیے کوشش کرے گا اور اسے اس راستے میں مظلومانہ قتل کردیا جائے گا ، بعض روایات میں نفس زکیہ کا نام سید حسنی ذکر ہوا ہے کیونکہ یہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی نسل سے ہو گا ۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :نفس زکیہ اور ظہور مہدی (عج ) کے درمیان فاصلہ 15 رات دن سے بھی کم ہے ۔[6]
5. صیحه آسمانی:یعنی آسمانی آواز ، روایات میں صیحہ،نداء،فزعہ،صوت، یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ایک ہی ہیں ۔
امام باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :آسمان سے منادی نداء دے گا کہ قائم کا ظہور ہو گیا ہے جو کہ پورے عالم میں سنائی دے گی یہاں تک کہ سوئے ہوئے بیدار ہو جائیں گے بیدار بیٹھ جائیں گے بیٹھے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے پھر فرمایا:خدا کی رحمت ہو ان پر جو اس آواز کا جواب دیں گے لبیک یامہدی،اور یہ آواز دینے والے جبرائیل امین ہونگے ۔
اور فرمایا:یہ آواز شب جمعہ ۲۳ ماہ رمضان میں آئے گی اور شیطان آواز دے گا کہ فلاں مظلوم مارا گیا تاکہ لوگ خوشی کے بجائے گریہ کریں اور ظہور کو بھول جائیں ۔
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :منادی نداء دے گا کہ اے لوگوں سنو ! حق علی کے ساتھ ہے اور شیطان کی آواز آئے گی کہ حق عثمان کے ساتھ ہے لیکن حضرت مہدی (عج) کے ظہور سے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہو گا کہ حق اولاد محمد (ص) کے ساتھ ہے اور ان کے سوا سب باطل پر ہیں ۔[7]
6. دجال کا خروج: یہ علامت اہل سنت کی کتابوں میں بھی ملتی ہے کیونکہ وہ دجال کے خروج کو قیامت کی نشانی سمجھتے ہیں۔[8] لیکن شیعہ راویوں نے اسے امام زمانہ (عج) کے ظہور کی علامت کہا ہے یہ دونوں باتیں ٹھیک ہیں کیونکہ ظہور امام عصر (عج) بھی آخری زمانے کی علامت ہے ۔
دجال ایک ایسا شخص ہے کہ جس کا کام لوگوں کو فریب دینا اور اپنی طرف مائل کرنا ہے یہ شخص بہت سے لوگوں کو جمع کرے گا اور آخر کار حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا ۔ [9]
اللھم عجل لولیک الفرج
---------------------------------------------------------
حواله جات:
[1] طبرسی ،کتاب اعلام الوری ص۴۵۵،منتخب الاثر ص۵۴۴
[2] کمال الدین وتمام النعۃ ج۲باب ۵۷ص ۵۵۶
[3] کمال الدین، ص 651. و بحار الأنوار، ج 52، ص 215؛ و کنز العمال، ج 14، ص 272؛ تاریخ غیبت کبری، ص 518 الی 520.
[4] مراصد الاطلاع، ج1، ص239؛ وافی، ج2، ص 442؛ مسائل العشره چاپ شده در مجموع مصنفات شیخ مفید، ج 3، ص 122 و غیبت نعمانی، ص 252، منتخب الأثر، ص 459؛ کتاب الغیبه نعمانی ص 252، تاریخ غیبت کبری ص 499 ـ 520.
[5] تاریخ غیبت کبری، ص 525، کتاب غیبت نعمانی 252.
[6]منتخب الأثر، 459، تاریخ الغیبه الکبری، ص 511؛ الارشاد، ج2، ص374؛ اعلام الوری، ص 427.
[7] تاریخ ما بعد الظهور/176 ـ کشف الغمه ج3، ص 260 ، وافی، ج 2، ص 445 ـ 446، کتاب الغیبه، شیخ طوسی، ص 435 و454 و453 – ارشاد، ج2، ص 371؛ کمال الدین / 651 بحار الأنوار، ج52، ص204-288-290؛ منتخب الاثر، ص 459، غیبت نعمانی/254.
[8] سنن ترمذی، ج4، ص 507 ـ 519؛ سنن ابی داوود؛ ج4، ص 115؛ صحیح مسلم، ج 18، ص 46 و 81.
[9] بحارالأنوار، ج 52، ص 193و209؛ کمال الدین 525 و 526؛ کشف الغمه، ج 3، ص 281؛ المسائل العشر، مصنفات شیخ طوسی، ج3، ص 122؛ ارشاد، ج2، ص 371، کنز العمال، ج 14، ص 198ـ200.
Add new comment