خلاصہ: رسولوں کو مبعوث کرنے کا سب سے بڑا مقصد، معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں میں عدل کو قائم کرنا ہے کیونکہ عدل کے ذریعہ ایک معاشرہ پوری طرح سے پُرامن اور ایک اچھا معاشرہ بن سکتا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند متعال نے عدل کو قائم کرنے کی بہت زیادہ تأکید فرمائی ہے، عدل کو ہر جگہ پر قائم کرنے کا حکم دیا ہے چاہے وہ فردی زندگی میں ہو یا اجتماعی زندگی میں، جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ[سورۂ نساء، آیت:۵۸] اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو»۔
رسولوں کو مبعوث کرنے کا سب سے بڑا مقصد، معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں میں عدل کو قائم کرنا ہے کیونکہ عدل کے ذریعہ ایک معاشرہ پوری طرح سے پُرامن اور ایک اچھا معاشرہ بن سکتا ہے اسی لئے رسولوں کے مبعوث کرنے کی ایک اہم وجہ عدل کے قیام کو قرار دیا گیا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ[سورۂ حدید، آیت:۲۵] بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں»۔
قرآن مجید نے کھلے لفظوں اور پوری وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں میں عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے۔ اس آیت میں ارشاد الٰھی ہے کہ ہم نے ان کو کتاب کے ساتھ ساتھ میزان بھی دیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو عادلانہ نظام کے قیام کی تلقین کریں۔ گویا عدل و انصاف ہی انسانیت کی خوشحالی اور بقاء کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی ذات گرامی کو دیکھ لیجئے آپ صرف انسان کامل نہیں تھے بلکہ پوری نوع انسان کیلئے نمونہ عمل بھی تھے۔ آپ کی محبت کا دم بھرنے والوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں کردار و گفتار کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اب بھی دیندار طبقہ عدالت کو بیحد پسند کرتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش عدالت کا نفاذ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیّت کی جائے کہ وہ خود عدالت و انصاف کو جاری کرنے والے بن جائیں اوراس راہ کواپنے قدموں سے طے کریں اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان اپنے اخلاق اور کردار میں عدل کو قائم کریں جب تک انسان اپنے اخلاق اور کردار میں عدل کو قائم نہیں کریگا اس وقت تک وہ معاشرے میں عدل کو قائم نہیں کرسکتا۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ اخلاقی عدالت یعنی انسان کے اندر عدالت کا ایک ایسا ملکہ پیدا ہوجائے جو اس کے اندار راسخ ہوجائے اور اس کے ذریعہ اس کے باطن کی اصلاح ہوجائے[۱]
امام صادق(علیہ السلام) رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے بارے میں فرماتے ہیں: «كان رسول اللّه(صلى الله عليه وآله) يقسم لحظاته بين اصحابه فينظر الى ذا بالسويه[۲] رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی روز مرہ زندگی کو اپنے اصحاب کے درمیان تقسیم کرتے تھے اور سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے»۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ذات مجسم ایک عدالت تھی کیونکہ آپ نے سخت ترین حالات میں بھی عدالت کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
نتیجہ:
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں: «إنّى بُعثتُ لاتممّ مكارم الاخلاق[۳] بے شک میں اخلاق کی خوبیوں کوتمام کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے»۔ رسول خدا(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اخلاق کا ایک مصداق معاشرے میں عدالت کو قائم کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] ترجمہ تفسیر المیزان، سيد محمد باقر موسوى همدانى، ج۶، ص۲۹۹، دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم، ۱۳۷۴ش۔
[۲] بحار الانوار، محمد باقر مجلسى، ج۱۰۸، ص۲۲۵، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۲ ق.
[۳] ارشاد القلوب، حسن ابن محمد دیلمی، ج۱، ص۱۷۴، مصطفوی، تہران۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسولوں کو مبعوث کرنے کا سب سے بڑا مقصد، معاشرے میں لوگوں کی زندگیوں میں عدل کو قائم کرنا ہے کیونکہ عدل کے ذریعہ ایک معاشرہ پوری طرح سے پُرامن اور ایک اچھا معاشرہ بن سکتا ہے اسی لئے رسولوں کے مبعوث کرنے کی ایک اہم وجہ عدل کے قیام کو قرار دیا گیا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ[سورۂ حدید، آیت:۲۵] بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں»۔
قرآن مجید نے کھلے لفظوں اور پوری وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں میں عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے۔ اس آیت میں ارشاد الٰھی ہے کہ ہم نے ان کو کتاب کے ساتھ ساتھ میزان بھی دیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو عادلانہ نظام کے قیام کی تلقین کریں۔ گویا عدل و انصاف ہی انسانیت کی خوشحالی اور بقاء کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی ذات گرامی کو دیکھ لیجئے آپ صرف انسان کامل نہیں تھے بلکہ پوری نوع انسان کیلئے نمونہ عمل بھی تھے۔ آپ کی محبت کا دم بھرنے والوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں کردار و گفتار کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اب بھی دیندار طبقہ عدالت کو بیحد پسند کرتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش عدالت کا نفاذ ہے۔
Add new comment