خلاصہ: متعصب افراد کیونکہ رسول اللہ ص کی بعثت کے بعد کی زندگی میں کوئی عصمت کے منافی کام نہیں ڈھونڈ سکے تو کچھ آیات پر استدلال کرتے ہوئے آنحضرت کی بعثت سے پہلے کی زندگی میں خلاف عصمت باتیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، ان آیات اور ان کا رد اس مقالہ میں بیان کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بحث طویل ہونے کی وجہ سے چند الگ مقالات پر مشتمل ہے۔
چونکہ بعثت کے بعد والے زمانے کے متعلق عصمت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بہت گہری اور وسیع حد تک بحثیں ہونے کی وجہ سے آپ کا ہر طرح کے گناہ اور غلطیوں سے دور ہونا ثابت ہوچکا ہے تو بعض بدنیت لوگ جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں کوئی سیاہ نقطہ نہیں پایا، وہ کوشش کرنے لگے کہ بعثت سے پہلے آنحضرت کے لئے کوئی عیب ڈھونڈیں تا کہ شاید آنحضرت کی عصمت کو پوری زندگی کے دوران متزلزل کرسکیں، لہذا اس مقصد کے لئے کچھ آیات سے اپنی مرضی کے مطابق استدلال کیا، ہم ان آیات کو چند مقالات کی صورت میں بیان کرکے ان کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں:
سورہ الضحی، آیت ۶
" و وجدک ضالا فهدی" قرآن کریم سورہ "الضحی" میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "ضال" آدمی کے طور پر تعارف کروا رہا ہے اور یہ تعارف آنحضرت کے بچپن اور جوانی سے متعلق ہے۔ جہاں فرمایا ہے: «الم یجدک یتیماً فاوی و وجدک ضالا فهدی» کیا آپ کو یتیم نہیں پایا اور پناہ دی اور گمراہ پایا اور ہدایت کی"۔ ان متعصب لوگوں نے لفظ "ضال" کو دینی مسائل میں گمراہ کے معنی میں تفسیر کیا ہے اور اسے "کفر" اور شرک وغیرہ کے برابر سمجھا ہے اور کہتے ہیں کہ پیغمبر زندگی کے کچھ حصہ میں اسی حالت میں تھے لیکن نعمت الہی کے طفیل ہدایت پائے اور لوگوں پر مقرر کردیئے گئے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ لفظ "ضال" عربی میں تین معانی میں استعمال ہوتا ہے: ۱۔ گمراہ ۲۔ گمشدہ ۳۔ گمنام۔ اب آیت کو تینوں معانی میں سے جس معنی میں تفسیر کیا جائے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت بالکل داغدار نہیں ہوتی۔
(الف) "ضال" گمراہ کے معنی میں: انسان میں گمراہی دو طرح کی متصور ہوسکتی ہے: ۱۔ انسان اپنی کچھ زندگی کو شرک و کفر یا گناہ اور نافرمانی میں گزارے لہذا آیت "غیر المغضوب علیھم ولا الضالین" میں لفظ "ضال" اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، اس صورت میں ضلالت انسان کی روح پر ایک تاریک حالت ہے اور اندھیرا عقل کی روشنی پر غالب ہوجاتا ہے۔ ۲۔ انسان کی زندگی کا صرف کچھ عرصہ گزرا ہے لیکن اس کی فکری اور عقلی توانائی نکھر رہی ہے، یعنی جب انسان کے بچپن کا زمانہ گزر رہا ہے تو ایک طرح کا "ضال" یعنی ہدایت کے بغیر ہے، اس صورت میں ضلالت، روح میں موجود حالت نہیں ہوتی بلکہ اس کا بالکل عدمی پہلو ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال ہدایت کے بغیر ہے اور اگر صورتحال اسی طرح جاری رہے تو ضلالت کے پہلے معنی تک جو ’’روح میں اندھیرا ہے‘‘، پہنچ جائے گی۔ اس آیت میں یہی دوسرا معنی مقصود ہے یعنی ہدایت کے بغیر ہونا۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ آیات خداوند متعال کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو نعمتیں ہیں ان کو بیان کررہی ہیں۔ آپ زندگی کے آغاز میں ہدایت کے بغیر تھے کیونکہ کوئی مخلوق ذاتی طور پر صاحب کمال نہیں ہے اور ہر انسان اور ہر چیز کے پاس جو کچھ ہے خداوند متعال نے اسے دیا ہے اور اگر اس ذات کا کرم نہ ہوتا تو کوئی انسان مقصد تک نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا یہ آیت آنحضرت کی ذاتی ہدایت کے نہ ہونے کے بارے میں ہے اور ہر مخلوق کی ہدایت حتی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت بھی اللہ کی جانب سے ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ اس ہدایت کا آغاز اُس وقت سے ہوا جب آنحضرت سے شیرخواری کے زمانہ میں، دودھ چھڑایا گیا۔ [1]
(ب) ضال، گمشدہ کے معنی میں: عربی میں یہ لفظ بعض اوقات گمشدہ شخص یا چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت آپ کے بچپن کے بارے میں ہو جو آپ "شعاب مکہ" میں گم ہوگئے تھے اور اگر اللہ کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو آپ کی جان چلی جاتی اور آنحضرت کی تاریخ حیات اس بات پر گواہ ہے۔[2]
(ج) ضال گمنام کے معنی میں: ہوسکتا ہے کہ "ضال" سے مراد آپ کا گمنام ہونا اور ناشناختہ ہونا ہو کہ جو فیض نبوت اور وحی کے نزول سے آپ مشہور ہوگئے اور آیت "ورفعنا لک ذکرک" جو اگلے سورہ میں آٗئی ہے اس معنی پر دلیل ہے۔ جب لفظ "ضال" سے مراد گمنامی ہو تو پھر "فھدی" سے مقصود پیغمبر (ص) کی ہدایت مراد نہیں ہے بلکہ لوگوں کو پیغمبر (ص) کی طرف ہدایت کرنا مراد ہے یعنی "فھدی الناس الیک" اور تیسری تفسیر بعض حضرات معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہے۔[3]
ان تینوں تفسیروں کے مدنظر کسی بھی طریقہ سے عصمت پیغمبر (ص) کے بارے میں متعصب افراد کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
عصمت پیامبر ( صلی الله علیه و آله ) پیش از بعثت۔ آیت اللہ جعفر سبحانی
[1] نهج البلاغه عبده خطبه 187.
[2] لسان العرب ج 11، ص 392، بحارالانوار ج 16، ص 137.
[3] [3] بحارالانوار، ج 16، ص 142.
Add new comment