چکیده:مقالہ ھذا میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ سنت نبوی میں اتحاد کیسا تھا اور اسکے کیا نتائج سامنے آئے ان باتوں کا ذکر کرتے ہوئے ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
آخر جزیرۃ العرب میں کوہ فاران کی چوٹیوں سے اس نور کامل کا ظہور ہوا جس نے عربوں کا مزاج ہی بدل دیا اور اکھڑ صحرا نشینوں کی کایا پلٹ دی، چنانچہ وہ لوگ جو زبرسدت تعصب اور انتشار کا شکار تھے اور جن کا زیادہ وقت قتل و غارتگری لوٹ مار اور ایک دوسرے کی عزت و آبرو لوٹنے میں گزرتا تھا، اس قدر باہم شیرو شکر ہوگئے کہ اس کی مثال تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی ۔ یہ عدیم النظیر معجزہ سرورکائنات (ص) کی بعثت سے رونما ہوا۔ آج بھی علم و عقل کی دعویدار دنیا انگشت بدنداں ہے کہ یہ عظیم انقلاب کیسے برپا ہوگیا۔ جس کی بنیاد وحدت نسل آدم اور اخوت و محبت کی آفاقی قدروں پر قائم تھی ۔ اسی معجزے کا مفہوم قرآن میں یوں کر رہا ہے کہ ’’نعمت خداوندی یعنی بعثت محمدی کی برکت سے تمہاری عداوتیں، محبتوں سے بدل گئیں، تمہاری نفرتیں الفتوں سے بدل گئیں، تمہاری تنگ نظریاں قلبی وسعتوں سے بدل گئیں اور تم آپس میں متحد ہو کر یوں شیر و شکر ہوگئے کہ تمہارے باہمی رشتے خونی اخوت کے رشتوں سے بھی مضبوط تر ہوگئے، ایک دوسرے کی جان لینے والے، ایک دوسرے کی جان کے محافظ بن گئے، دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے دوسروں کی عزتوں کے نگہبان بن گئے، پھر تمہاری عزتیں ایک عزت میں گم ہوگئیں، تمہاری محبتیں ایک محبت میں گم ہوگئیں اور بالآخر تمہاری منتشر وفاداریاں بھی ایک وحدت میں بدل گئیں۔[1]
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کو برقرار کرنے کی علت کیا تھی؟ رسول کو ایسی کونسی ضرورت آن پڑی تھی کہ آپ نے ہجرت کے پہلے ہی سال اس کام کو انجام دیا ؟
حضرت جعفر سبحانی اپنی کتاب فراز ھایی تاریخ اسلام میں فرماتے ہیں: جب رسول مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو تین اہم مشکلوں سے روبرو تھے۔
۱۔ قریش اور ان تمام بت پرستوں کی طرف سے خطرہ لاحق تھا جو جزیرۃ العرب میں زندگی بسر کررہے تھے۔
۲۔ ان یہودیوں اور عیسائیوں سے خطرہ لاحق تھا جو مدینہ اور اطراف مدینہ میں بسے ہوئے تھے۔
۳۔ مسلمانوں میں ’’اوس ‘‘ و ’’خزرج‘‘ میں آپس کا اختلاف۔ان تین مشکلوں کو دیکھتے ہوئے رسول نے یہ قدم اٹھایا۔[2]
رسول اسلام (ص) کی نظر میں تیسرا خطرہ اتنا اہم تھا کہ اگر یہ حل نہ ہوتا تو دوسرے دو خطرے دور ہونے کے بعد بھی مسلمان امان میں نہ رہتے ۔ اس لئے کہ مسلمان آپس ہی میں ایک دوسرے سے لڑتے اور ختم ہوجاتے ۔ یہی وجہ تھی کہ رسول نے پہلی فرصت میں تمام انصار و مھاجر کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنادیا اور اس طرح اوس و خزرج کے اختلاف کو ختم کر کے تمام مسلمانوں کو داخلی اور خارجی خطرہ سے محفوظ کرتے ہوئے جو مھاجرین بے گھر اور فقیر تھے ، اس رشتہ اخوت سے انہیں رہنے کے لئے گھر اور کھانے کے غذا کا انتظام کردیا۔
اگر رسول کے اس عمل (سنت) پر غور کیا جائے تو مسلمانوں کے اتحاد سے چند فائدے وجود میں آئے۔
۱۔ مسلمان، خارجی طاقت قریش اور بت پرستوں کے خطرہ سے محفوظ ہوگئے۔
۲۔ مسلمان، داخلی طاقت، یہودیوں اور عیسائیوں (کہ جو مدینہ اور اطراف مدینہ میں رہتے تھے)کی طرف سے پائے جانے والے خطرہ سے محفوظ ہوگئے۔
۳۔ وہ مسلمان جو غریب الوطن تھے ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام ہوگیا۔
گویا سنت رسول ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے : اے مسلمانو! اگر آپس میں متحد رہوگے تو تم خارجی اور داخلی طاقت سے امان میں رہو گے چاہے وہ کتنی ہی بڑی طاقت ہو اگر تمہارے پاس اتحاد کی طاقت ہے تو ہر طاقت اس کے سامنے صفر ہے۔
اے مسلمانو! اگر تم آپس میں متحد ہوتے اور ایک دوسرے کے لئے درد دل رکھتے تو آج کوئی یتیم بچہ بھوکا نہ سوتا، کوئی بیوہ عورت کسی کے سامنے اپنا دست نیاز دراز کرتے ہوئے نظر نہ آتی اور کوئی فقیر مسلمان فٹ پاتھ پر گرمیوں کی تپش اور سردیوں کی ٹھنڈک میں سونے پر مجبور نہ ہوتا۔
مگر افسوس ہم نے مشترکہ عقائد کو نظر انداز کرکے آپس کے فردی عقائد کے اختلاف کو اتنی ہوا دیدی کہ کہ دشمن جو کل تک ہمارے اتحاد سے ڈرتا تھا آج وہی ہمارے ہی ملک میں ہماری ماں بہنوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کررہا ہے، اور غیرت کی انتہا ہے کہ تمام حکام اسے ظلم کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں مگر کوئی مقابلہ کی جرئت نہیں کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] آل عمران /130۔
[2] فرازھایی از تاریخ پیامبر اسلام، ص 212و 214۔
Add new comment