امام محمد باقرعلیہ السلام اپنے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرماتے ہیں:
«يا بُنيّ، إذا أنعَمَ اللّهُ عَلَيكَ بِنِعمةٍ فَقُل «الْحَمْدُاللَّه» وإذا حَزَبَكَ أمرٌ فَقُل «لاحَولَ ولاقُوّةَ إلّا بِاللّهِ» وإذا أبطأ عَليكَ الرِّزقُ فَقُل «أستغفِرُاللّهَ» ۔ [1]
میرے بیٹے ! جب اللہ تمہیں کسی نعمت سے نوازے تو «الْحَمْدُاللَّه» کہو اور اگر کوئی کام تمہارے لئے سخت و سنگین ہوجائے تو «لاحَولَ ولاقُوّةَ إلّا بِاللّهِ» کہو اور جب رزق میں تاخیر ہو تو «أستغفِرُاللّهَ» کہو۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے لحاظ سے بچوں کو اخلاقی اور سماجی آداب سیکھانے کیساتھ ساتھ دینی نکات اور جوانب سے بھی اشنا کرانا ضروری ہے کیوں کہ اُس خالق حقیقی یعنی خدا کی ذات سے جڑے رہ کر گھٹن اور مشکل وقت کی سختیاں آسانیوں میں بدل جاتی ہیں ۔
امام جعفر صادق (ع) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ میں ہر شب اپنے والد بزرگوار امام محمد باقر (ع) کے بستر کو بچھانے بعد خود سونے جایا کرتا تھا، ایک شب حضرت (ع) کا منتظر رہا مگر حضرت اپنے معینہ وقت پر گھر تشریف نہیں لائے تو میں خود مسجد گیا اور حضرت کو تلاش کیا ، تو دیکھا کہ مسجد خالی ہے ، سارے لوگ اپنے گھروں کو جا چکے ہیں اور حضرت سجدے کے عالم میں گریہ فرما رہے ہیں اور گریہ کے عالم میں خدا کی بارگاہ میں عرض کررے ہیں «سُبْحانَک اللَّهمَّ انْتَ رَبّی حَقّاً حَقّاً، سَجَدْتُ لَک یا رَبِّ تَعَبُّداً وَرِقّاً، اللَّهمَّ انَّ عَمَلی ضَعیفٌ فَضاعِفْهُ لی، اللَّهمَّ قِنی عَذابَک یوْمَ تُبْعَثُ عِبادُک وَتُبْ عَلَی انَّک انْتَ التَّوَّابُ الرَّحیمُ ۔ [2]
خدا تیری ذات پاک و بے نیاز ہے اور حقیقتا تو میرا پروردگار ہے ، خدایا فقط عبادت و بندگی کی بناء پر تیرا سجدہ کرتا ہوں ، میرے خدا ! میرا عمل بہت مختصر ہے تو اسے میرے لئے زیادہ کر ، خدایا جس دن تیرے بندے محشور ہوں گے مجھے عذاب سے محفوظ رکھ ، اور میری توبہ قبول فرما کہ تو سب سے زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔
نیز حضرت جعفر صادق (ع) نے فرمایا کہ جب بھی میرے والد (ع) سخت اور کٹھن حالات سے روبرو ہوتے تو اپنی اہلیہ اور بچوں کو اکٹھا کرکے دعا کرتے اور سب لوگ آمین کہتے ۔ [3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[3] كشف الغمه، ج 2، ص 363 ۔ نزهة الناظر و تنبیه الخاطر ، جلد1 ، ص 99 ۔ بحار الأنوار الجامعة لدررأخبار الأئمة الأطهارعلیهم السلام ، ج 75 ، ص 187 ۔
[2] الكافى، ج 3، ص 327، ح 9 ۔
[3] بحار الانوار، ج 46، ص 297 ۔
Add new comment