مورخین نے صر اسلام کے حالات اور اس دور کی تاریخ کے باب میں یہ تحریر کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانہ میں خواتین پردہ کرتی تھیں البتہ ان کا حجاب اور پردہ ، کامل اور جس قسم کے پردہ کا حکم اسلام نے دیا ہے ویسا پردہ نہ تھا، عرب خواتین معمولا لمبے لمبے لباس پہنا کرتی تھیں مگر گلہ کھلا ہوتا تھا ، گردن اور سینہ کا بالائی کچھ حصہ قابل دید تھا، سر پر جو اسکارف اور دوپٹہ ڈالتیں اسے اپنی پشت پر ڈال دیتیں، جس کی وجہ سے انکا کان ، کان کی بالیاں ، گردن اور سینہ کا بالائی حصہ قابل دید ہوجاتا ۔ (۱)
امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا : ایک دن گرمی کے موسم میں مدینہ کی گرم ہوا میں ایک خوبصورت عورت معمول کے مطابق سر پر اسکارف باندھے ، اسکارف کے سرے کو اپنی پشت پر ڈالے کہ جس کی وجہ سے ان کی گردن اور کان دِکھ رہا تھا، گلی سے گذر رہی تھی ، اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے ایک صحابی سامنے کی گلی سے ارہے تھے ، وہ اس حَسِین اور خوبصورت منظر کو دیکھنے میں اس قدر محو ہوگئے کہ اپنے اطراف سے غافل ہوگئے اپنے سامنے کا راستہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے ، وہ عورت گلی میں داخل ہوگئی مگر صحابی کی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں کہ ناگہاں اپ کا چہرہ دیوار سے باہر نکلے ہوئے شیشہ کے ٹکڑے سے ٹکرایا اور اپ کی صورت زخمی ہوگئی ، جب وہ غفلت سے چونکے تو ان کے چہرہ خون سے لد پھد رنگین اور زخمی ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں رسول اسلام (ص) کی خدمت میں پہونچے اور انہوں نے مرسل اعظم (ص) سے تمام ماجرا بیان کیا ۔ (۲)
یہ وہ مقام ہے جس کے بعد رسول اسلام (ص) پر آیت حجاب نازل ہوئی « وَ قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ إِلاَّ ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ .... ؛ اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں ۔ » (۳)
اس ایت کریمہ کے لب و لہجہ سے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ مذکورہ ایت حجاب اور پردہ کے دائرہ اور محدودہ کو بیان کررہی ہے کیونکہ صدر اسلام کی عورتوں کے بدن ، لمبے لباس اور پہناوے سے ڈھکے ہوئے تھے مگر گردن اور سینہ کا بالائی حصہ کھلا ہوا تھا ۔
اس ایت میں موجود اس ٹکڑے « لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ » کے سلسلہ میں راغب اصفھانی فرماتے ہیں کہ خمر کے لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور خمار اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو ڈھکا یا چھپایا جائے مگر عرف عام میں خمار اس کپڑے سے مخصوص ہے جس سے عورت اپنا سر چھپاتی اور ڈھکتی ہے (۴)
بیان کیا جاتا ہے کہ اس ایت کے نازل ہونے کے وقت عرب معاشرہ کی خواتین اپنے اسکارف کے چاروں کونے سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈال دیتی تھی جس کے نتیجہ میں ان کا گلا اور سینہ کا اوپری حصہ کھل جاتا تھا ۔ (۵) تو پھر ایت کے معنی اور اس کی تفسیر یہ ہوئی کہ عورتیں اپنا اسکارف سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈالنے سے پرھیز کریں ، اس سے اپنی گردن اور اس کے نیچے کے حصہ کو بھی چھپائیں تاکہ ان کی گردن اور سینہ کا اوپری حصہ بھی ڈھکا رہے ۔
ابن عباس اس ایت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «تغطی شعرها، و صدرها، و ترائبها و سوالفها» یعنی عورت اپنا بال ، اپنا سینہ، گردن کے اطراف اور گردن کے نیچہ کا حصہ چھپائے رکھے ۔ (۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شھید مطهری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج 19، ص 484- 485
۲: فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج 5، ص 230 اور شھید مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 19، ص 485
۳: قران کریم، سورہ نور، ایت 31
۴: راغب اصفهانی، مفردات الفاظ قرآن، لفظ خمر
۵: قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 2، لفظ حجب
۶: طبرسی، مجمع البیان، ج 4، ص 138
Add new comment