ایران میں اسلامى بیداری (۱)

Wed, 02/09/2022 - 12:58
ایران میں اسلامى بیداری(۱)

تاریخ ایران میں آخرى دوصدیاں سیاسی، اقتصادی، معاشرتى اور دینى سطح پر مختلف تغیرات اور تبدیلیوں كى بناپر_اہم ادوار میں سے شمار ہوتى ہیں یہ دور كہ جسے '' تاریخ معاصر ایران'' كے عنوان سے شہرت حاصل ہوئی ایران میں قاجاریہ سلسلہ حكومت كے آغاز سے شروع ہوا_

ایسى حالت میں جبكہ قاجار خاندان مملكت ایران پر پرانے رسم و رواج كے تحت بغیر لوگوں كى رائے اور شراكت كے اپنى آخرى قبایلى حكومت كو مستحكم كرنے میں لگے ہوئے تھے دنیا كے ایك اوركو نے میں فرانس كا عظیم انقلاب آچكا تھاااور وہ لوگ نئے افكار اور نظام سے لوگوں كو متعارف كروا رہے تھے ،جسكى سب سے اہم خصویت سیاسى طاقت كى مركزیت ایك فرد كى آمرانہ حكومت كے نظام سے ہٹاتے ہوئے جمہوریت اور ڈیموكریسى كى صورت میں لانا تھا_

اس حساس دور میں قاجارى ایك دھائی تك تخت و تاج پر قبضہ كرنے كى كشمكش كے بعد بھى كوئی نیا نظام سامنے نہ لاسكے بلكہ انہوں نے اسى انداز سے اپنى مرضى اور ارادہ كو ان حالات پر مسلط كیا اور حكومتى عہدوں كو اپنے افراد میں تقسیم كردیا اور حكومت اسى طرح بادشاہى نظام میں آمرانہ بنیادوں پر جارى رہی_[1]اقتصادى حوالے سے حكومت سابقہ ادوار كى مانند سب سے بڑى حیثیت كى مالك تھى ،لوگوں كى اقتصادى اور معاشرتى زندگى كى باگ دوڑ حكومت كے پاس تھى اوردر آمدات كے ذخائر میں بادشاہ لا محدود حقوق كامالك تھا اسى طرح اسكے زیر حكومت سرزمین كے افراد كى جان و مال سب عملى طور پر اسكى مرضى اور منشاكے تحت تھے_[2]

ایران یورپ سے اگر چہ دور تھا جو طاقتور ممالك كى رقابتوں كا مركز تھا لیكن انگریزوں كے ما تحت ہندوستان كى ہمسایگى كى وجہ سے اور یہ كہ ایران ہندوستان پر تسلط كیلئے بہترین تزویرى محل وقوع كا حامل تھا (وہ ہندوستان جودنیا میں انگلستان كى سیاست ، اقتصاد اور طاقت كا سرچشمہ تھا) فتح على شاہ قاجار كے زمانہ سے ایكدم استعمارى ممالك كى توجہ كا مركزبن گیا_ دیگر ممالك سے ایران كے خارجہ تعلقات كے سلسلے میں نہ چاہتے ہوئے بھى كسى طرح سے روس، فرانس اور انگلستان بھى داخل ہوگئے اورایرانى حكومت اور معاشرتى نظام میں كمزوریوں كے باعث ان ممالك سے روابط غیر متوازن ہوگئے كہ جسكا نتیجہ استعمارى معاہدوں كو مسلط كرنا اور مملكت ایران كے شمال اور مشرق میں اہم علاقوں كا اس سے جدا ہونے كى صورت میں نكلا_

بڑى طاقتوں بالخصوص روس اور انگلینڈ كے مقابلے میں ایران كى شكست سے بتدریج سب سے پہلے مروجہ سیاسى نظام اور پھر معاشرتى سطح پر غیر رسمى نظام میں اہم تبدیلیاں پیدا ہوئیں ،یہ اہم تبدیلیاں مندرجہ ذیل ہیں :اصلاحات كا حتمى طور پر عسكرى اور صنعتى شعبوں میں جارى ہونا اور پھر دیگر شعبوں بالخصوص سیاسى سطح پر جارى ہونا ،اسى طرح اسلام اور دین كى اساس كى حفاظت كیلئے اسلامى بیدارى كے احساسات كا ظاہر ہونا اور اندرونى آمریت كامقابلہ كیا جانا اور غیر ملكى استعمارگروں سے سامنا كى صورت میں قاعدہ ''نفى سبیل ''كا استعمال میں لانا ... ہمارا اس تحریر میں ہدف یہ ہے كہ تاریخ معاصر ایران میں اسلامى بیدارى اور اسكے نشیب و فراز كا تجزیہ كیا جائے_

قاجارى حكومت كے اوائل میں ایرانى معاشرہ میں مذہبى قوتوں بالخصوص مراجع تقلید كا ہمیشہ كیلئے مذہبى قائدین كے عنوان سے سامنے آنے كے اسباب فراہم ہوچكے تھے نیز شیعہ علمى و دینى مراكزمیں اہم تبدیلى رونما ہوچكى تھى ، یہ تبدیلى مجتہدین كى محدثین پر فتح با الفاظ دیگر اجتہادى اور اصولى روش كا حدیثى اور اخبارى روش پر غلبہ تھا[3]اجتہادى مكتب كو زندہ كرنے كے لیے وحید بہبہانى كى كوششوں كى اہمیت یہ تھى كہ انہوں نے ایسے شاگردوں كى تربیت كى كہ جنہوں نے ا سلامى بیدارى كى تحریك میں اہم كردار ادا كیا_ مثلا كاشف الغطاء ملا مہدى اور ملا احمد نراقی_[4]

متعدد تالیفات اور بنیادى امور جنہیں اسلامى بیدارى اور اصولى مكتب كے فكرى مقدمات كى حیثیت حاصل تھى _ طے كرنے كے بعد عملى مرحلہ شروع ہوا اس زمانہ میں شیعہ علماء كو '' بیرونى استعمار '' كے عنصر كا سامنا كرنا پڑا_ علماء نے ان بیرونى تسلط پسندوں كے مد مقابل فقہى قانون'' نفى سبیل'' كا سہارا لیتے ہوئے محاذقائم كیا_ اس فقہى قانوں كى اساس یہ قرآنى آیت ہے'' لن یجعل اللہ للكافرین على المومنین سبیلاً'' [5]یہ آیت مسلمانوں پر كفار كے تسلط كى نفى كر رہى ہے_ جدید شیعہ انقلابى نظریہ میں ایسى تعابیركہ جو آرام و سكون اور تسلیم و پسپائی كى طرف دعوت دیتى تھیں انہیں ترك كردیا گیا اور انكى جگہ مبارزانہ اور انقلاب پسند جذبات نے لے لی_ [6]

فتحعلى شاہ قاجار كے زمانہ میں ایران اور روس كے درمیان جنگوں میں ایران كى شكست كے بعد روس كا ایران كے ایك وسیع علاقہ پر قابض ہونے پر اصول پسند علماء كى طرف رد عمل كا اظہار تاریخ معاصر ایران میں اصولى علماء كى طرف سے پہلى عملى مد اخلت شمار ہوتى ہے_

علماء نے روس كے ساتھ جنگ كوجہاد كا عنوان دیا_ كہا جاتا ہے كہ ایران و روس كے درمیان جنگوں سے قبل بھى جہاد كے افكار ایرانى معاشرہ میں موجود تھے ایران كے ساتھ دفاعى قرار دادوں كے باوجود انگریزوں اور فرانسیسیوں كا ایران پر روس كے حملے كے دوران ایران كى حمایت نہ كرنا اور روس سے ایران كى شكست كے بعد حكومت قاجاریہ اس نتیجہ پر پہنچى كہ مسلمانوں كى سرزمین سے روسى افواج كو دھكیلنے كے لیے علماء شیعہ كى مدد لیے بغیر چارہ نہیں ہے ،میزرا عیسى فراہانى كہ جسے قائم مقام اول كا لقب دیاگیا تھا نے اس مسئلہ میں فتوى حاصل كرنے كیلئے علماء كى حمایت اور تعاون حاصل كرنے كى ذمہ دارى اپنے كندھوں پر لى ،كچھ مدت كے بعد مقدس مقامات ا ور ایران كے دوسرے شہروں سے بہت سے فتاوى اور جہادى رسالے سامنے آنے لگے جو سب روسى كفار كے مقابلے میں جہاد كے وجوب پر تاكید كرتے تھے میرزا عیسى قائم مقام نے ان سب كو جمع كرنے كے بعد ''جہادیہ ''كے عنوان سے انكى اشاعت كی_[7]

علماء شیعہ كى طرف سے فورى رد عمل بتارہا تھا كہ اصولى مكتب كے علماء كا اسلامى بیدارى كے احساسات كو زندہ كرنے میں میلان اور سیاست میں انكى مداخلت ہر روز بڑھ رہى تھى ،كم از كم ایران و روس میں جنگوں كے دوسرے دور تك فتحعلى شاہ كى مذہبى سیاست یعنى علماء حضرات كى حمایت و تعاون كا حصول اور انہیں ایرانى معاشرے میں كردار اداكرنے كى دعوت اس طبقے (علما) كے معاشرے میں بھر پور مقام كا باعث بنی_[8]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ويلم فلور، جستارہايى از تاريخ اجتماعى ايران در عصر قاجار، ترجمہ ابوالقاسم سرى تہران، توس، ج 2 ، ص 20_
[2] احمد سيف، اقتصاد ايران در قرن نوزدہم ، تہران ، نشر چشمہ 1373، ص 49_
[3] آقا احمد كرمانشاہي، مرآت الاحوال جہانما، بہ تصحيح و اہتمام على دوانى ، تہران ، مركز اسناد انقلاب اسلامى ، 1375، ص 110_
[4] روح اللہ حسنيان ، چہاردہ قرن تلاش شيعہ براى ماندن و توسعہ، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ج دوم 1382، ص 195_ 194_
[5] نساء ،آيت 141_
[6] يداللہ ہنرى لطيف پور ، فرہنگ سياسى شيعہ و انقلاب اسلامي، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامى ،ج 2، ص 107_ؔ
[7] ميرزا عيسى قائم مقام فراہانى ، احكام الجہاد و اسباب الرّشاد ،باسعى غلام حسين زرگرى ناد، تہران، قبعہ ،ص 6_75_
[8] حامد الگار،دين و دولت در ايران، ترجمہ ابوالقاسم سرّي، تہران، توس، ج 2 ، ص 97_ 87 _

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49