حضرت امام علی نقی (۲)

Sun, 02/06/2022 - 08:47
امام علی نقی ع

فضائل و کمالات

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر کیا ہے: امام ابو جعفرؑ کے بعد ابو الحسن امام علی نقی ؑامام ہوئے اس لئے کہ آپ میں امامت کے لئے تمام ضروری کمالات پائے جاتے تھے اور آپ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے بہتر تھے آپ کے علاوہ کوئی اس منصب کے لائق نہیں تھا اور آپ کو اپنے والد کی طرف سے امامت کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ (۱)

ابن شہر آشوب نے آپ کے بارے میں لکھا ہے: آپ کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ جذاب تھا آپ کی گفتگو سچی تھی چہرہ کی ملاحت اور کمالات میں سب سے بہتر تھے جب خاموش ہوتے تھے تو آپ کی ہیبت اور وقار دوبالا ہو جاتا تھا اور جب گفتگو فرماتے تھے تو نورانیت میں اضافہ ہو جاتا تھا آپ خاندان رسالت و امامت اور مرکز وصایت و خلافت سے متعلق تھے آپ نبو

ت کے عظیم شجر کی ایک شاخ تھے جس کی فصل تیار ہونے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔

وہ شجر رسالت کا ایک ایسا پھل تھے جنہیں درخت سے چننے اور انہیں امام ماننے کا وقت  قریب تھا۔ (۲)

ابو موسیٰ کا بیان ہے : میں نے امام علی نقی ؑ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی مخصوص دعا تعلیم فرمادیں جسے میں اپنی مشکلات کے حل کے لئے پڑھ لیا کروں آپ نے فرمایا:  میں اکثر اس دعا کو پڑھتا ہوں اور میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ دعا کرنے والے کو اپنی بارگاہ سے مایوس واپس نہ کرے۔

یا عدتی عند العدد، و یا رجائی و المعتمد و یاکہفی والسند، و یا واحد یا أحد، یا قل ہو اللّٰہ أحد، و أسألک۔

اللّٰہم !۔ بحق من خلقتہ من خلقک و لم تجعل فی خلقک مثلہم أحداً، أن تصلی علیہم (و أن تفعل بی کیت و کیت) (۲)

سعید حاجب کا بیان ہے: میں نے متوکل کے حکم سے کچھ سپاہیوں کے ساتھ رات میں ابوالحسن امام علی نقی ؑکے گھر پر حملہ کیا اور دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا آپ اونی لباس پہنے اور سر پر ٹوپی لگائے نماز میں مصروف تھے میرے اس طرح اندر داخل ہونے سے آپ کے چہرہ پر کسی طرح کا خوف نہیں طاری ہوا۔ (۴)

ابن حجر کا بیان ہے: ابو الحسن ؑعلم و سخاوت میں اپنے والد کے وارث تھے۔ (۵)

ابن صباغ مالکی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے: ابوالحسن علی ابن محمد ؑکے فضائل و کمالات نے کرامت کی زمین پر خیمہ نصب کر رکھا تھا اس کی رسیاں آسمان کے ستاروں تک پہونچی ہوئی تھی جس فضیلت کا بھی تذکرہ کیا جائے اسے آپ کے ذریعہ زینت حاصل ہو چکی ہوتی تھی جس کرامت کا تذکرہ کیا جاتا اس کے لئے فضیلت کا سبب آپ ہی کی ذات مبارک تھی جو تعریف کی جاتی اس کا خلاصہ اور تفصیل سب آپ ہی کے پاس موجود تھا جو احترام اور اکرام ہوتا اس کے آثار ان کی ذات میں واضح اور آشکار تھے آپ کی یہ خوبی آپ کے ان بہترین صفات اور خصوصیات کی وجہ سے تھی جو آپ کی ذات میں پائے جاتے تھے اور ہر طرح کے عیب و نقص سے اس طرح آپ کی حفاظت کرتے تھے جس طرح اونٹ چرانے والے اپنے اونٹوں کے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں آپ کا نفس پاکیزہ اور آپ کااخلاق پسندیدہ تھا۔

سلیمان ابن ابراہیم قندوزی حنفی نے محمد خواجہ پارسا کی کتاب فصل الخطاب سے نقل کیا ہے ابوالحسن علی ہادیؑ ایک عبادت گذار فقیہ اور امام تھے۔

متوکل سے کہا گیا: آپ کے گھر میں اسلحہ اکٹھا ہے اور آپ خلافت پر قبضہ کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

اس نے چند لوگوں کو حکم دیا کہ رات میں آپ کے گھر پر حملہ کریں جب متوکل کے افراد آپ کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کو اس حال میں پایا کہ جسم مبارک پر بالوں سے بنا ہوا پیراہن تھا۔

اور ایک اونی لباس سر پر اوڑھے ہوئے ریتیلی اور سنگریزوں والی زمین پر بغیر فرش کے رو بقبلہ بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے آپ کے لب ہائے مبارک پر وعدووعید سے متعلق آیات تھیں۔ متوکل کے سپاہی اسی حال میں آپ کو متوکل کے پاس لے گئے جب

اس نے امام ؑکو اس حال میں دیکھا تو آپ کا احترام کیا اور اپنے پہلو میں بٹھایا امام ؑنے اس سے گفتگو کی متوکل آپ کی باتیں سن کر رونے لگا اور عرض کیا: اے ابوالحسن ؑکیا آپ کے اوپر قرضہ ہے؟  آپ نے فرمایا:  میں چار ہزار دینار کا مقروض ہوں۔

متوکل نے حکم دیا: چار ہزار دینار آپ کو دے دیئے جائیں اور اس کے بعد انتہائی احترام کے ساتھ آپ کو رخصت کر دیا گیا۔ (۶)

محمد ابن احمد علوی نے اپنے چچا سے نقل کیا ہے: کہ میںا یک دن امام علی نقی ؑ کی خدمت میں تھا میں نے عرض کیا متوکل نے میرے حقوق کو بند کر دیئے ہیں اس لئے کہ اس کو معلوم ہوگیا ہے میں آپ سے وابستہ ہوں بہتر ہے اس سلسلہ میں آپ اس سے بات کریں۔  آپ نے فرمایا: انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں رات میں اپنے گھر میں تھا کہ متوکل نے کسی کو میرے گھر بھیجا اس نے دروازہ پر دستک دی اور کہا تجھے متوکل نے بلایا ہے۔ میں جب متوکل کے پاس گیا اس نے کہا ابو موسیٰ میں اپنی مصروفیات کی بنا پر تجھے بھول گیا تھا تیرے کتنے پیسے میرے ذمہ ہیں؟ میں نے عرض کیا: فلاں مقدار جو ہمیشہ عطا کرتے تھے میں نے ان چیزوں کواس کے سامنے بیان کیا اس نے حکم دیا کہ مجھے اس سے دوگنا عطا کیا جائے ۔ میں نے حکم ابن خاقان سے پوچھا کیا علی ابن محمدؑ یہاں آئے تھے یا آپ نے متوکل کے لئے کوئی خط تحریر فرمایا تھا اس نے کہا نہیں۔

میں امامؑ کی خدمت میں پہونچا آپ نے فرمایا: اے ابو موسی ؑاتنے پیسہ سے تم راضی ہوگئے میںنے عرض کیا آپ کے وجود کی برکت سے اے میرے سید و سردار ان لوگوں کا بیان ہے کہ آپ نہ متوکل کے پاس گئے اور نہ اس سے کسی چیز کا مطالبہ کیا۔

آپ نے فرمایا: کہ خداوند عالم جانتا ہے کہ ہم اپنی مشکلات کے حل کے لئے اس کے علاوہ کسی اور سے پناہ نہیں مانگتے خدا نے ہماری ایسی عادت ڈلوائی ہے کہ جب ہم دعا کرتے ہیں تو وہ قبول کر لیتا ہے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اپنا رویہ بدل دیں تو کہیں خدا بھی ہمارےاوپر اپنے لطف و کرم کادروازہ نہ بند کردے۔(۷)

آپ کا علم

پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ دین سے مربوط تمام علوم امامت کی بنیادی شرط ہیں امامت کے وجود کا سب سے بڑا فلسفہ اور امام کی سب سے بڑی ذمہ داری دینی تعلیمات اور اسلامی احکام کی ترویج اور حفاظت، اس سلسلہ میں ائمۂ معصومین ؑمیں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ۔ علوم دین کے منابع اور مدارک تمام ائمہ ؑ کے پاس موجود تھے اور وہ سب اس ذمہ داری کوادا کرنے میں کوشاں تھے اگر احادیث کی کتابوں میں بعض ائمہؑ کی احادیث کم نظر آئیں تواس کا سبب زمانے کے حالات اور بعض ایسے موانع ہیں جو ظالم و جابر حکام کی طرف سے پیدا کئے جاتے تھے۔

امام علی نقی ؑ اپنے آباء و اجداد کی طرح تمام انسانی کمالات کے حامل تھے اور تمام دینی علوم آپ کے پاس موجود تھے آپ بھی اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت اوران کی ترویج کی راہ میں کوشاں رہتے تھے لیکن افسوس کہ آپ ایسے ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے اور کچھ ایسی پابندیوں کا سامنا تھا جن کی وجہ سے اپنی ذمہ داری اپنی مرضی کے مطابق انجام نہیں دے سکتے تھے۔

امام علی نقی ؑ کی عمر مبارک تقریباً ۴۲ سال تھی آٹھ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے آپ کی امامت کا زمانہ تقریباً ۳۳ سال تھا اپنی امامت کی ابتدا میں تقریباً بیس سال مدینہ میں زندگی بسر کی اور تاریخ کے مطابق اس زمانے میں بغداد کے حکمراں مدینہ میں اپنے حکام کے ذریعہ آپ کی نگرانی کرتے تھے لہٰذا شیعوں اور آپ کے عقیدتمندوں کو تعلیمات کے حصول میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس کے باوجود متوکل نے صرف دور سے نگرانی کرنے پر اکتفا نہیں کی بلکہ مدینہ کے حکام کی شکایت پر آپ کو مدینہ سے بظاہر احترام کے ساتھ بغداد بلوا لیا اور وہاں سے آپ کو سامرہ کے محلہ عسکر، جہاں فوجیوں کی رہائش گاہ تھی منتقل کردیا اس وقت  ۲۴۳ ھ سے آپ کو خفیہ اور فوجی افراد کی شدید نگرانی میں سخت نظر بند کردیا گیا اور اس طرح شیعوں سے آپ کا رابطہ بالکل ختم ہوگیا یا بہت کم رہ گیا ایسے حالات میں کس کی ہمت ہوسکتی تھی کہ وجوہ شرعیہ لے جا کر آپ کی خدمت میں پہونچاتا یا آپ سے تعلیم حاصل کرتا یہی وجہ ہے آپ سے نقل ہونے والی احادیث کی مقدار زیادہ نہیں ہے۔  لیکن پھر بھی اصول دین، عقائد، اخلاق، موعظہ و نصیحت اور فقہ کے مختلف ابواب میں آپ سے بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں جواحادیث کی کتابوں میں موجود ہیں ان کے مطالعہ سے آپ کے علمی مراتب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

امام علی نقی ؑنے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن کے اسمائے گرامی تاریخ ، حدیث اور رجال کی کتابوں میں درج ہیں۔

کتاب مناقب کے مؤلف نے آپ کے اصحاب کے نام اس طرح ذکر کئے ہیں:

داؤد ابن زید ابو سلیم زنکان، حسین ابن محمد مدائنی، احمد ابن اسماعیل ابن تقطیر، بشر ابن بشار نیشابوری شاذانی، سلیمان ابن جعفر تروزی، فتح ابن پرند جرجانی، محمد ابن سعید ابن کلثوم، جو متکلم و علم کلام کے ماہر تھے معاویہ ابن حکیم کوفی، علی ابن محمدابن محمد بغدادی، ابو الحسن ابن رجا عبرتائی ۔ (۸)

تحریر: حمید الحسن زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: الارشاد، ج۲، ص۲۹۷
۲: مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۳۲
۳: بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۲۷،
۴: الفصول المہمہ، ص۲۶۴
۵: الصواعق، ج۱، المحرقہ، ص۲۰۷
۶: ینابیع المودۃ، ص۴۶۳
۷: مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۴
۸: مناقب آل ابوطالبؑ ج۴، ص ۴۳۴

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 99