توسل کے معنی يہ ہيں کہ تقرب الہی کے لئے کسی محترم مخلوق کو اپنے اور خدا کے درميان وسيلہ قرار ديا جائے۔
توسل کے معنی يہ ہيں کہ تقرب الہی کے لئے کسی محترم مخلوق کو اپنے اور خدا کے درميان وسيلہ قرار ديا جائے
ابن منظور لسان العرب ميں لکھتے ہيں :
''توسّل اِليہ بکذا ، تقرب اِليہ بحرمة آصرة تعطفہ عليہ''( 1)
اس نے فلان چيز کے ذريعہ اس شخصيت سے توسل کيا يعنی اس نے اس چيز کی حرمت کے ذريعہ اس ذات سے قربت اختيار کی جب کہ اس کی حرمت سے اپنی قلبی محبت کو اپنے اندر محسوس کيا .
قرآن مجيد فرماتا ہے:
يَاَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْ تَغُوا لَيْہِ الْوَسِيلَةَ وَجَاہِدُوا فِ سَبِيلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(2)
ايمان والو! لله سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو اور اس کی راه ميں جہاد کرو کہ شايد اس طرح کامياب ہوجاؤ .جوہری ''صحاح اللّغة'' ميں ''وسيلہ'' کی تعريف کو يوں بيان کرتے ہيں: ''الوسيلة ما يتقرّب بہ الی الغير''
وسيلہ ايسی چيز ہے جسکے ذريعہ کسی دوسرے کے قريب ہوا جائے اس اعتبار سے بعض اوقات انسان کے نيک اعمال اور خدا کی خالص عبادت اس کيلئے وسيلہ بنتے ہيں اور کبھی کبھی خدا کے محترم اور مقدس بندے انسان کے لئے وسيلہ قرار پاتے ہيں .
توسل کی قسميں
توسل کی تين قسميں ہيں: ١۔نيک اعمال سے توسل؛
جلال الدين سيوطی نے اس آيت (وَابْتَغُوا لَيْہِ الْوَسِيلَةَ) کے ذيل ميں اس روايت کا ذکرکيا ہے:
عن قتادة ف قولہ تعالیٰ''وَابْتَغُوا لَيْہِ الْوَسِيلَةَ''قال : تقرّبوا اِلی للهّ بطاعتہ والعمل بما يرضيہ(3) (وَابْتَغُوا لَيْہِ الْوَسِيلَةَ) اس آيت کے متعلق قتادة کا بيان ہے . کہ خدا کی اطاعت اور اس کو خوشنود کرنے والے عمل کے ذريعہ خدا سے قربت اختيار کرو . ٢۔خدا کے نيک بندوں کی دعاؤں سے توسل !
قرآن مجيد نے جناب يوسف کے بھائيوں اور جناب يعقوب کی گفتگو کو يوں بيان کيا ہے :
قَالُوا يَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا نَّا کُنَّا خَاطِئِينَة قَالَ سَوْفَ سْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّ نَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)( 4)
ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کيلئے استغفار کريں ہم يقينا خطاکار تھے انہوں نے کہاکہ ميں عنقريب تمہارے حق ميں استغفار کروں گا کہ ميرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے .
اس آيت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب يعقوب کے بيٹوں نے اپنے والد کی دعا اور ان کے استغفار سے توسل کيا تھا حضرت يعقوب نے بھی نہ صرف ان کے توسل پر کوئی اعتراض نہيں کيا بلکہ ان سے وعده بھی کيا کہ وه ان کے حق ميں دعا اور استغفار کرينگے . ٣۔قرب الہی کے حصول کيلئے خداوند کريم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل:
اس قسم کے توسل کی مثاليں، اوائل اسلام ميں آنحضرتۖ کے اصحاب کی سيرت ميں دکھائی ديتی ہيناب ہم يہاں اس مسئلے کی دليلوں کو احاديث اور سيرت صحابہ کی روشنی ميں پيش کرتے ہيں .
احمدابن حنبل نے اپنی کتاب مسند ميں عثمان بن حنيف سے يہ روايت نقل کی ہے : اِن رجلاً ضرير البصر أتی النبّ فقال ادع للهّ أن يعافين قال: اِن شئت دعوت لک و اِن شئت أخرت ذاک فھو خير فقال ادعہ فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوئہ فيصل رکعتين و يدعو بھذا الدعائ: اللّھم اِنّ أسئلک و أتوجہ اِليک بنبيک محمدٍ نبّ الرحمة يا محمد اِنّ توجّھت بک اِلیٰ ربّ ف حاجت ھذه ، فتقض ل اللّھم شفّعہ فّ.( 5)
ايک نابينا شخص رسول خدا کی خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا کہ آپۖ پروردگار سے دعا کيجئے کہ وه مجھے شفا بخشے آنحضرت نے فرمايا اگر تم چاہتے ہو تو ميں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں ليکن اگر چاہو تو اس سلسلے ميں کچھ تاخير کردی جائے اور يہی بہتر بھی ہے اس نے عرض کيا کہ آپۖ دعا فرماديں تو پيغمبرخداۖ نے اس شخص کو حکم ديا کہ وه وضو کو اچھے طريقے سے انجام دے اور پھر دو رکعت نماز بجا لائے اور يہ دعا پڑھے :اے معبود ميں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تيری طرف متوجہ ہوتا ہوں تيرے پيغمبر نبی رحمتۖ حضرت محمدۖ کے وسيلے سے اے محمد ميں آپکے وسيلے سے اپنی اس حاجت ميں اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ آپ ميری حاجت کو قبول فرمائيں اے معبود ان کو ميرے لئے شفيع قرار دے. محدثين نے اس حديث کو صحيح قرار ديا ہے جيسا کہ حاکم نيشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک ميں اس حديث کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ'' يہ ايک صحيح حديث ہے'' ابن ماجہ نے بھی ابو اسحاق سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ :'' يہ روايت صحيح ہے'' اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب ''ابواب الادعيہ'' ميں اس حديث کے صحيح ہونے کی تائيد کی ہے ''محمد بن نسيب الرفاعی '' نے بھی اپنی کتاب ''التوصل الی حقيقة التوسل'' ميں يوں بيان کيا ہے
لاشک اِن ھذا الحديث صحيح و مشھور ...و قد ثبت فيہ بلا شک ولاريب ارتداد بصر الأعمی بدعاء رسول للهّ ( 6)
بے شک يہ حديث صحيح اور مشہور ہے...بہ تحقيق اس حديث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا کی دعا کے نتيجے ميں اس اندھے شخص کی بصارت لوٹ آئی تھی اس حديث سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ حاجات کے لئے پيغمبرخداۖ کو وسيلہ بنا کر ان سے توسل کرنا ايک جائز عمل ہے کيونکہ رسول خدا نے اس نابينا شخص کو حکم ديا تھا کہ وه اس طرح دعا کرے اور حضور(ص) کو اپنے اور پروردگار کے درميان وسيلہ قرار دے اس طرح يہ حديث اوليائے الہی سے توسل کو ثابت کرتی ہے .
٢۔ابوعبدلله بخاری کا اپنی کتاب صحيح ميں بيان ہے : اِن عمربن الخطاب رض للهّ عنہ کان اِذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبدالمطلب فقال : اللّھم اِن کنّا نتوسّل اِليک بنبيّنا فتسقينا و اِنّا نتوسّل اِليک بعمّ نبيّنا فاسقنا: قال، فيُسقون.(7)
جب قحط پڑتا تھا تو عمر ابن خطاب ہميشہ عباس ابن عبدالمطلب کے وسيلے سے بارش کيلئے دعا کرتے تھے اور کہتے تھے ''خدايا ! پيغمبر کے زمانے ميں ہم آنحضرت سے متوسل ہوتے تھے اور تو ہم پر بارش نازل کرتا تھا اب ہم پيغمبرۖ کے چچا کے وسيلے سے تجھ سے توسل کررہے ہيں تاکہ تو ہميں سيراب کردے '' چنانچہ اس طرح وه سيراب کردئيے جاتے تھے.
٣۔صدر اسلام کے مسلمانوں کے درميان اوليائے الہی سے توسل اس حد تک رائج تھا کہ وه لوگ اپنے اشعار ميں بھی حضور کے وسيلہ ہونے کا تذکره کرتے تھے بطور مثال سواد ابن قارب کا يہ قصيده ملاحظہ فرمائيں جس ميں انہوں نے حضور اکرم کی مدح سرائی کی ہے : واشھد أن لاربّ غيره
وأنک مأمون علیٰ کل غالب
و أنک أدنیٰ المرسلين وسيلة
اِلی للهّ يابن الأکرمين الأطائب( 8)
ميں گواہی ديتا ہوں کہ خدا کے علاوه کوئی پروردگار نہيں ہے اور آپۖ ہر پوشيده چيز کے لئے امين ہيں اور اے مکرم اور پاک طينت افراد کے فرزند ميں گواہی ديتا ہوں کہ آپۖ تمام نبيوں کے درميان پروردگار کا نزديک ترين وسيلہ ہيں.
پيغمبر خدا نے سواد بن قارب سے يہ قصيده سنا تھا ليکن اس کے اشعار پر کوئی اعتراض نہيں کيا تھا اور نہ ہی سواد کے اس کام کو شرک و بدعت قرار ديا تھا .
امام شافعی نے بھی اپنے ان اشعار ميں اس حقيقت کو بيان کيا ہے :
آل النبّ ذريعت
ھم اليہ وسيلت
أرجوبھم أعطی غدًا
بيد اليمين صحيفت( 9)
پروردگار تک پہنچنے کے لئے پيغمبر کی آل ميرے لئے وسيلہ ہيں ميں ان کی وجہ سے اميدوار ہوں کہ ميرا نامہ اعمال ميرے دائيں ہاتھ ميں ديا جائے گا. اوليائے الہی سے توسل کے جائز ہونے کے سلسلے ميں بہت سی روايات آئی ہيں اور انہی روايات کی روشنی ميں پيغمبرخداۖ صحابہ اور علمائے اسلام کا اس موضوع سے متعلق نظريہ معلوم ہوجاتا ہے اور مزيد گفتگو کی چنداں ضرورت نہيں رہتی ہے ۔ ہمارے اسی بيان سے ان لوگوں کا يہ کلام کہ خدا کے محترم بندوں سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے ، باطل ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- لسان العرب، جلد ١١ ص ٧٣٤
- سوره مائده آيت: ٣٥
- تفسير درالمنثور جلد ٢ ص ٢٨٠ مطبوعہ بيروت اسی آيت کی تفسير کے ذيل ميں
- سوره يوسف آيت نمبر ٩٧ اور ٩٨
- مسند احمد بن حنبل ، جلد ٤ ص ١٣٨ روايات عثمان بن حنيف ،مستدرک حاکم ؛ جلد ١ کتاب صلوة التطوع )
طبع بيروت ٣١٣ ،سنن ابن ماجہ جلد ١ ص ٤٤١ طبع دار احياء الکتب العربيہ، ''التاج '' جلد ١ ص ٢٨٦ ،الجامع الصغير (سيوطی) ص ٥٩ ،التوسل و الوسيلہ(ابن تيميہ) ص ٩٨ طبع بيروت - التوصل الی حقيقة التوسل ص ١٥٨ طبع بيروت
- صحيح بخاری جز ٢ کتاب الجمعہ باب الاستسقاء ص ٢٧ طبع مصر
- الدر السنيہ ،مؤلفہ سيد احمد بن زينی دحلان ص ٢٩ طبرانی سے نقل کرتے ہوئے
- الصواعق المحرقہ ،مؤلفہ ابن حجر عسقلانی ص ١٧٨ طبع قاہره
Add new comment