دعوت دینے والوں کی طرح دعوت پانے والے بھی دو طرح کے ہیں، بعض شیطان کی دعوت اور اس کی ولایت کو قبول کرلیتے ہیں ، اس کی باتوں اور مطالبات کو اپنے امور کی بنیاد قرار دیتے ہیں ، اسے اپنے کاموں میں شریک بنا لیتے ہیں ، اسے اپنے دل میں بیٹھا لیتے ہیں اور اس کی اغوش میں پرورش پاتے ہیں ۔
نتیجہ میں ان کا دیکھنا، سننا اور بولنا شیطان کے دیکھانے، سُنانے اور بلوانے پر منحصر اور ہماہنگ ہے، انکا راستہ شیطان معین کرتا ہے اور انہیں غلط راستہ پر لے جاتا ہے ، برائیوں کو انہیں حَسِین اور اچھا دیکھاتا ہے ، اپنے شاگردوں اور اطاعت گزاروں کے ذریعہ انہیں فریب دیتا ہے ۔
شیطان اپنے شاگردوں کے وسیلے ایسے انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیتا ہے اور خود اپنے تمام چیلوں کے ساتھ ، انبیاء الھی کی تبلیغ و ہدایتوں کے مدمقابل کھڑا ہوجاتا ہے ، انسانوں کو سیدھے راستہ سے منحرف کرکے انہیں بدعتوں کا عادی بنا دیتا ہے ۔
شیطان اور اس کے تمام شاگرد اپنے زعم باطل اور خیال خام میں اس طرح چراغ ہدایت کہ جو انسانی فطرت کا تقاضہ ہے، خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انسانوں کو دھوکے و فریب کے ذریعہ حقیقی و معقول چیزوں کی جانب سے بہکا کر غیر حقیقی و غیر معقول چیزوں کی جانب کھینچ کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جیسا کہ خود شیطان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور اس کی قسم کھائی ہے «قَالَ فَبِعِزَّتِک لَأُغْوِینَّهُمْ أَجْمَعِینَ ؛ اس [شیطان] نے کہا سو تیری عزّت کی قسم ! میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا» ۔ (۱)
شیطان کے یہ تمام شاگرد اور چیلے علمائے صالح ، سچے اور دیندار دانشوروں اور اساتذہ کی جگہ لیکر انسان کے یقین کو شک میں ، اخلاص کو ریا کاری اور دکھاوے میں ، انکسار و تواضع کو تکبر میں، نصیحت کو دشمنی میں، زھد و تقوا کو بے ایمانی و خطا میں بدل دیتے ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے استاد اور معلم کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا «و لا عِلمَ إلاّ مِن عالِمٍ ربّانيٍّ ، اگاہ رہو کہ علم ، بجز متقی اور پرھیزگار علما و دانشوروں کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے » ۔
دعوت پانے والوں کا دوسرا گروہ عاقل اور سمجھدار افراد کا گروہ ہے کہ جو خدا ، رسول ، اولیاء و اوصیاء الھی اور بندگان خاص کی دعوت سے روبرو ہوتے ہیں تو اسے دل سے قبول کر لیتے ہیں اور خود کو معنوی بچوں کی فہرست میں شامل کرلیتے ہیں ، نبوی اور علوی ہوجاتے ہیں ، اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتے ہیں " أَنَا وَ عَلِیٌّ أَبَوَا هَذِهِ الْأُمَّة ؛ ہم اور علی [دونوں] اس امت کے باپ ہیں" ۔ (۲)
ان کا نبوی اور علوی بن جانا ان کی پیچان اور ان کی شناخت کا وسیلہ بن جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی شخصیت کو پہچنوانے اور منوانے کیلئے خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے «وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا ۚ وَاذکروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَیکم إِذ کنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَینَ قُلوبِکم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخوانًا وَکنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَةٍ مِنَ النّارِ فَأَنقَذَکم مِنها ۗ کذٰلِک یبَینُ اللَّهُ لَکم آیاتِهِ لَعَلَّکم تَهتَدونَ ؛ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ » ۔ (۳)
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: سورہ ص ایت ۸۲
۲: بحارالأنوار، باب ۶ ، حدیث ۱۶ ۹۵
۳: سورہ ال عمران ، ایت ۱۰۳
Add new comment