شاید اس دوران اعراب اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کی اہم وجہ، فلسطین میں یہودیوں کی آبادی، تعداد اور ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو، یہ لڑائی سن ۱۹۴۸ عیسوی میں بالاترین سطح پر پہونچ گئی جس کے بعد غاصب اسرائیل نے اپنی حکومت کی بنیاد ڈالی اور پھر اس کے بعد کوئی جنگ رونما نہ ہوئی۔
فلسطین کو صھیونی سرزمین میں تبدیل کیا جانا، فلسطین میں یہودیوں کی تعداد میں افزودگی، صھیونیوں کیلئے کے سرمایہ کی فراہمی اور ایک مستقل سیاسی نظام کے قیام پر متمرکز تھی۔
فلسطینیوں نے اس نہضت و تحریک کے مد مقابل قیام کیا کیوں کہ ان کے حقوق پائمال اور کچلے جارہے تھے، اس دوران غاصب صہیونیزم سے جنگ و پیکار عرب پڑوسی ممالک کے تعاون، حمایت و پشت پناہی میں انجام پارہی تھی۔
ابن سعود، تنہا اور مستقل اسلامی حکمراں کے ہونے کی وجہ سے ان کے پاس فلسطینیوں کی حمایت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، انہیں یہ بات بخوبی سمجھ میں آرہی تھی کہ اس جنگ اور ٹکراو کے نتائج کچھ ایسے ہوں گے کہ تمام علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور سعودیہ عربیہ کی موقعیت پر بھی اثر انداز ہوں گے، اس اختلاف میں دینی و سیاسی رنگ بھی موجود تھا کیوں کہ مکہ و مدینہ کے بعد قدس شریف، جہان اسلام کا اہم کا حصہ اور مقدس مقام شمار کیا جاتا تھا۔
الحاج امین الحسینی قدس شریف کے مفتی اس زمانے میں ملت فلسطین کے سب سے بڑ ے اور اہم لیڈر و رھبر تھے جو سیاسی اور دینی کردار ادا فرما رہے تھے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
گذشتہ قسط یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6404
Add new comment