اہل باطل کی تمام تر کوششیں یہی ہوتی ہیں کہ حق و باطل میں ایسی ملاوٹ و گراوٹ کرڈالیں کہ ہر کسی میں اس کی شناخت کی توانائی نہ رہ جائے اور عام انسان حق کی پہچان میں دھوکہ کھا جائے ۔
لہذا قوم کے رھبر اور معاشرہ کے ذمہ داروں کے پاس وہ توانائی اور بینا نگاہیں ہونی چاہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرسکیں، مطلب حق میں ملے ہوئے باطل کے ذرات کو بھانپ لیں اور بلکل ایک جوہری کے مانند سونے سے کھرے کھوٹے کو الگ کردیں اور ہرگز حق کا لباس پہنے باطل پرستوں کی خواہشات کا شکار نہ ہوں ۔
قرآن مجید نے سورہ اسراء کی ۸۱ ویں ایت کریمہ میں ارشاد فرمایا کہ "قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً" اور (اے پیغمبر) کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے ۔ (۱)
خداوند متعال کے اس بیان کے مطابق باطل کی عمر اور مدت کوتاہ و مختصر ہے، مٹ جانا اور ختم ہونا اس کا خاصہ ہے چاہے وہ حق کے لباس میں ہی کیوں نہ ظاہر ہو !
باطل سیاہ فام سایہ کے مانند ہے جو ہرگز سورج کی موجودگی میں لوگوں کو گمراہ نہیں کرسکتا بلکہ فقط و فقط اس کی غیبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سادہ لوح افراد پر خود کو مسلط کرلیتا ہے، جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ہوا، آپ جب تک معاشرہ میں موجود رہے دشمن ناکامی کا شکار رہا مگر جیسے ہی کوہ طور پر تشریف لے گئے انکی غیبت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی شیطانی چال میں کامیاب ہوگیا۔
اہم سوال !!
تاریخی واقعات و دریچے اس بات کے شاہد و گواہ ہیں کہ رھبر اور راہنما کا فقدان انسان کو حیرانی و پریشانی کا شکار کردیتا ہے مگر امام وقت حضرت حجت ابن الحسن العسکری علیھما السلام کی غیبت کے باوجود شیعہ قوم آج بھی اسی راستہ پر گامزن ہے جیسے رسول اسلام اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے ترسیم کیا تھا، تو اس کی بنیاد کیا ہے ؟؟
جواب !
جواب اس حدیث شریف میں موجود ہے کہ امام زمانہ (عج) نے فرمایا «أَمّا وَجْهُ الاْنْتِفاعِ بی فی غَیبَتی فَکالاْنْتِفاعِ بِالشَّمْسِ إِذا غیبتها عَنِ الاْبْصارِ السَّحاب ؛ ترجمہ : میری غیبت میں مجھ سے استفادہ کی صورت ایسے ہی ہے جیسے سورج بادل میں انکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور اس کا فائدہ پہونچتا ہے۔ » (۲)
البتہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو امام (عج) کی غیبت مکمل غیبت نہیں ہے اگر چہ ظاھر کچھ ایسا ہی ہے کیوں کہ امام (عج) نے ایک دوسری روایت میں فرمایا : «وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ ، ترجمہ: (میرے بعد رونما ہونے والے) حوادث میں میرے روات (مرجع وقت) کی جانب مراجعہ کرو کیوں کہ وہ تم پر میری حجت ہیں اور ہم ان پر اللہ کی حجت ہیں ۔ » (۳)
یہ دونوں روایتیں مرجعت کی تائید اور ان کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں کہ امام زمانہ (عج) اور در حقیقت پیغمبر اسلام(ص) کے مشن کو اگے بڑھانے والے وقت مراجع کرام خصوصا ولی فقیہ ایت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: سورہ اسراء ایت 81
۲: بحارالأنوار، ج 53، ص 181، ح 10
۳: کمال الدین و تمام النعمة، شیخ صدوق، ج1، ص484، اسلامیہ.
Add new comment