مسلم بن عوسجہ کی وصیت حقیقی عزادوروں کے نام

Mon, 08/09/2021 - 07:20
مسلم بن عوسجہ کی وصیت حقیقی عزادوروں کے نام

’’کل ارض کربلا ، کل یوم عاشورا‘‘ہمارے بزرگوں نے کیا خوب شعار ہمیں دیا ہے جو نسلا بعد نسل منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہونچا ہے، یہ کوئی حدیث و روایت کے جملے نہیں ہیں، لیکن اکثر احادیث و روایات کی عکاسی کر رہے ہیں، یہ جملات کربلا میں رونما ہونے والے واقعات  اور الفاظ کی ہمارے لئے درس عبرت ہونے کو بتا رہے ہیں، اور واضح لفظوں میں کہہ رہے  ہیں کہ کربلا کو کسی ایک خاص خطہ یا زمین میں محدود نہ کرو،  اور اسمیں ہونے والے واقعات کو کسی خاص دن پر منحصر نہ کرو، بلکہ ہر وہ زمیں جہاں ظلم کے خلاف آواز اٹھے گی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھا نے والے رہبر کی دل و جان سے حمایت ہوگی وہ زمین کربلا کی زمین ہوگی، اور جب ، جس وقت، جس زمانہ میں ظلم کے خلاف بولا جائے گا وہ دن ، وہ وقت ، وہ زمانہ عاشور کا وقت ہوگا۔

کربلا میں اصحاب حسینی کا کردار ایک  ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ روز عاشورا ان کی شہادتیں اور وصیتیں ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں۔

مقالہ حاضر میں ہم قارئین کی خدمت میں امام حسین علیہ السلام کے ایک عظیم صحابی جو اپنی وفاداری میں بھی دوسرے اصحاب کی طرح بے نظیر تھا، تاریخ کربلا میں جن کا نام مسلم بن عوسجہ بتایا جاتا ہے، ان کی شہادت اور وصیت کا تذکرہ کرنا چاہیں گے۔

 ارباب مقاتل نقل  کرتے ہیں کہ جیسے ہی روز عاشورا آتش جنگ کےشعلے بھڑکنے لگے عمرو بن الحجاج کہ جو لشکر عمر سعدکے میسرہ کاسردار تھا اس نے لشکر امام حسین کے میمنہ پر حملہ کردیااور شمر ابن ذی الجوشن نے اصحاب امام پر میسرہ کی جانب سے حملہ کر دیااسی دوران مسلم بن عوسجہ لشکر امام سے زخمی شیر،برق خرمن سوز،اور تیز آندھی کی طرح نکلے اور سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے بڑی شاندار جنگ کر رہے تھے اور یہ رجز پڑھتے جاتے تھے :
            ان تساٰلوا عنّی فانّی ذو لبد           من فرع قوم من ذری بنی اسد
            فمن بغانی حائر عن الرّشد            و کافر بدین جبّار صمد

’’اگر تم مجھے پہچاننا چاہتے ہو تو جان لو کہ میں وہ شیر شجاع ہوں کہ جس کاتعلق اشراف بنی اسد سے ہے جو مجھ پر ستم و زیادتی کرے گاگویا وہ راہ سعادت و ہدایت سے بھٹک گیا ہے اور نتیجۃً خدائے جبّار و صمد کے دین سے کافر ہو گیا ہے‘‘

میدان کربلا میں موجود اشخاص کابیان ہے کہ جیسے ہی غبار جنگ بیٹھی مشاہدہ کیا گیامسلم بن عوسجہ زمین پرپڑے ہوئے ہیں اور اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں امام عالی مقام ان کے سرہانے آکر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’یرحمک اللہ یامسلم‘‘ (۱) اے مسلم بن عوسجہ خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے اس کے بعد اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی ’’فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر وما بدّلو ا تبدیلاً‘‘(۲)

اسی اثناء میں حبیب ابن مظاہر آئے اور حضرت مسلم سے کہا اے مسلم!تمہاری شہادت میرے لئے بڑی دشوار ہے لیکن اب تم خوش ہو جاؤکہ جنّت تمہاری راہ دیکھ رہی ہے۔

مسلم بن عوسجہ نحیف سی آواز میں بولے :’’اے حبیب تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے مجھے جنت کی بشارت دی ،لیکن میں خداوند عالم سے دعا گو ہوں کہ وہ تم کو سعادت اور خوشبختی کی بشارت دے‘‘ حبیب کہتے ہیں :’’مسلم میرے بھائی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں تمہارے بعد کچھ دن زندہ رہ سکوں گاتو میری یہ آرزو ہوتی کہ تم مجھ سے کچھ وصیت کرتے تاکہ میں اس کو پوری کر سکتا لیکن میں خود تمہارے پیچھے پیچھے آرہا ہوں لیکن پھر بھی اگر کچھ کہنا چاہتے ہو تو کہو‘‘ ’’مسلم بن عوسجہ نے اپنی انگلی سے سرکار سید الشہداء کی جانب اشارہ کیا اور کہاکہ میں تم کو مولا حسین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو ان کی حفاظت کرتے رہو اور اپنی جان ان کے قدموں پر نثار کر دینا حبیب ابن مظاہر نے کہا کعبہ کے خدا کی قسم ایسا ہی کروں گا اس کے بعد مسلم بن عوسجہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور جوار رحمت کو سدہار گئی‘‘(۳)

قارئین عزیز! بے شک مسلم بن عوسجہ شہید ہوگئے لیکن ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے، کل تلک حسین کی ذات اقدس کو بچانا اہم تھا لیکن شہادت حسین علیہ السلام کے بعد، اب اور اس دور حاضر میں، ہدف اور مقصد حسینی کو بچانا ضروری ہے، ایسا نہ ہو ہم حسین اور اصحاب حسینی کی مظلومیت پر تو گریہ کررہے ہوں، لیکن عمل سے انہیں کے اہداف و مقاصد کو پائمال کر رہے ہوں، اس وقت مسلم بن عوسجہ سامنے آئیں گےاور وصیت کے طور پر کہیں گے، میں نے اپنی شہادت کے عین موقع پر آپ لوگوں سے وصیت نہیں کی تھی کہ جب تک آپ لوگ زندہ ہیں میرے آقا و مولا کے وجود اور ان کے اہداف و مقاصد کا خیال رکھنا ؟؟ کہاں گئے میری مظلومیت پر رونے والے؟ کہاں گئے میرے آقا حسین علیہ السلام پر جان نچھاور کرنے والے؟کہاں گئے لبیک یا حسین کہنے والے؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱)عوالم العلوم، جلد۱۷، صفحه۳۳۵۔  و إقبال الأعمال، جلد۲، صفحه۵۷۳۔
(۱)سورہ احزاب، آیت ۲۳۔
(۲) وقعۃ الطف ،ابو مخنف ،ص۲۲۵۔۲۲۶، الارشاد المفید،ج۲،روضۃ الشہداء ،کاشفی السبزواری ،ص۳۶۹۔۳۷۰ نفس المہموم القمی، ص۱۲۰۔۱۲۱، منتھی الامال القمی ،ج۲ ص۸۳۵۔۸۳۷ ،معالی السبطین ،ج۱ ص۳۷۵۔۳۷۷ المجلس ۵ وسیلۃ الدارین،الزنجانی،ص۱۸۶۔۱۸۷

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 47