اس بات میں کوئی شک نہیں اور تاریخ بھی شاہد ہے کہ آج تلک جتنی بھی اسلامی تحریکیں اٹھیں ہیں ان میں اسلام ہی کو کامیابی ملی ہے، اور اس کامیابی کا راز اسمیں پنہاں ہے کہ اس تحریک کے قائدین کے پاس مخلص اور وفادار ساتھی موجود تھے۔ کربلا کے عظیم اور دلخراش سانحہ میں بھی سید الشھداء امام حسین (ع) کے پاس نہایت ہی وفاداراور مخلص اصحاب تھے کہ جنکی قربانی کے سبب آپ کو کامیابی ملی۔ آپ (ع) کے اصحاب کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ کا وہ مبارک کلام نقل کیا جائے کہ جس میں آپ اپنے اہلبیت اور اصحاب کی تعریف میں فرماتے ہیں:’’ لَا أَعْلَمُ أَصْحَابًا أَوْفَی وَلَا خَیرًا مِنْ أَصْحَابِی، وَلَاأَهْلَ بَیتٍ أَبَرَّ وَلَا أَوْصَلَ مِنْ أَهْلِ بَیتِی؛ فَجَزَاکمُ اللَهُ عَنِّی خَیرَ الْجَزَآءِ‘‘ میں نے کسی کے اصحاب کو اپنے اصحاب سے بہتر اور باوفا نہیں پایا اور کوئی بھی رشتہ دار میرے رشتہ داروں سے نیک اور حقیقت سے نزدیک تر نہیں۔ خدا آپ لوگوں کو مجھ سے جزائے خیر عنایت کرے۔(۱)
آج ہم جانثار امام حسین (ع)حضرت جون کا ذکر کرنا چاہیں گے، جون ایک حبشی غلام تھے، حضرت امیر المومنین امام علی(ع) نے انہیں خریدا تھا اور حضرت ابوذر غفاری کو عطیہ کردیا تھا، جب حضرت ابوذرغفاری کو ربذہ کی طرف جلاوطن کیا گیا تو یہ غلام ان کی مدد کیلئے ان ساتھ گئے، حضرت ابوذر غفاری کی رحلت کے بعد مدینہ واپس چلے آئے اور حضرت علی کی خدمت میں رہنے لگے، آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن مجتبٰی (ع) کی خدمت میں رہے، ان کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین (ع) کے پاس آئے، پھر یہ آپ کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک آپ کے ہمراہ رہے، روز عاشور حضرت جون امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام نے فرمایا میں تمہیں اس سرزمین سے جانے کی اجازت دیتا ہوں، تم اپنی جان کی حفاظت کرو، کیونکہ تم ہمارے ساتھ آئے تھے، تاکہ خوشی و مسرت ملے، اب اپنی جان خطرے میں نہ ڈالو۔
حضرت جون نے عرض کی: ’’اے فرزند رسول خدا میں خوشی و عافیت کے زمانے میں تو آپ کے ساتھ رہوں اور جب آپ پر مشکل وقت آن پہنچا ہے تو آپ کو تنہا چھوڑ کر چلا جائوں‘‘!
خدا کی قسم اگرچہ میرا جسم بدبودار ہے، میرا حسب نسب پست اور میرا رنگ سیاہ ہے، لیکن آپ مجھ پر رحم فرمائیں اور مجھے جنت کی جادووانی زندگی سے بہرہ مند فرمائیں، تاکہ میرا جسم خوشبوادر ہو جائے، میرا حسب و نسب شریف اور میرا چہرہ نورانی ہو جائے، خدا کی قسم میں آپ سے اس وقت تک دور نہیں ہوں گا، جب تک میرا سیاہ خون آپ کے پاک خون کے ساتھ غلطان نہ ہوجائے، یہ جملات سنتے ہوئے امام کی آنکھوں میں آنسو آگئے آُپ نے جون کو اجازت دی، جون میدان گئے اور جنگ شروع کی ،جب میدان جنگ میں اترے تو ایسے آئے جیسے ایک غضبناک شیر اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ آخر کار دشمن کی فوجوں نے آپ کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ آپ زخم کھا کر زمین پر گرے۔ امام (ع)، جون کے پاس پہنچے اور اس کا سر اپنے دامن پر رکھا اور بہت گریہ فرمایا۔
وہ حسین علیہ السلام جو پوری دنیا کے مقابلے میں یک و تنہا کھڑے ہو جاتے ہیں یا ایک صحراء میں بھرے بھیڑیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے سے نہیں گھبراتے، لیکن یہی شخصیت کبھی بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مقابلے میں منقلب ہو جاتے ہیں؛ مثلاً اُس وقت جب ایک حبشی غلام زخمی ہو کر زمین پر گر گیا، جو امامؑ کے چاہنے والوں اور آپؑ کے ارادتمندوں میں سے تھا۔ اجتماعی اور معاشرتی حوالے سے اُس دور کے مسلمانوں میں غلام کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی خاندانی لحاظ سے کسی اعلٰی خاندان سے اس کا تعلق تھا۔
عاشورہ کے دِن کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کئے، جیسے حبیب ابنِ مظاہر، زُہیر ابن قین اور دیگر شہدائے کربلا جن کا شمار کوفہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتا تھا، ان میں سے کسی ایک کی شہادت پر بھی امام حسین علیہ السلام نے ایسا ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا تھا، جو ردِّ عمل اِس حبشی غلام کی شہادت پر دکھایا۔ جب مسلم ابنِ عوسجہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے تو آپؑ نے مسلم ابن عوسجہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اِن شَاءاللہ تم اللہ تعالٰی سے اس کا اجر پاؤ گے۔‘‘ لیکن جب یہ حبشی غلام زمین پر گرتا ہے کہ جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اِس کا کوئی رشتہ دار اِس پر رونے والا ہے تو، امام حسین علیہ السلام آگے بڑھتے ہیں اور اِس غلام کے ساتھ وہی کچھ کرتے ہیں، جو آپؑ نے حضرت علی اکبر علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا، یعنی امام حسین علیہ السلام اِس غلام کے سرہانے زمین پر بیٹھ گئے اور اس کے خون آلود سر کو اپنے زانو پر رکھا، لیکن امامؑ کے دل کو تب بھی سکون نہیں ملا اور سب نے یہ منظر دیکھا کہ ایک مرتبہ امام عالی مقامؑ نے اپنے چہرۂ مبارک کو ’’جون‘‘ کے خون آلود چہرے پر رکھا۔ یوں انسانی ہمدردی اور احساس کا ایک منظر سامنے آگیا!(۲)
اپنا مبارک ہاتھ، جون کے چہرے اور جسم پر پھیرا اور دعا فرمائی، اے پروردگار! جون کے چہرے کو سفیدی عطا فرما۔ اس کی بو کو پسندیدہ بنا اور اسے خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ محشور فرما۔ واقعہ عاشورا کے دس روز بعد بنو اسد کی ایک جماعت نے حضرت جون، غلام ابوذر کی لاش مطہر کو تلاش کیا۔ اتنے عرصہ کے باوجود ان کا جسم مبارک معطر اور نورانی تھا، اس کے بعد انہیں دفن کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(۱)الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۹۱، شیخ مفید، کتابفروشی اسلامیه، تهران – ایران، 1376 ش، چاپ سوم۔
(۲)ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنه ای ،ج 1 ص 207 ، انتشارات آستان قدس رضوی ، مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی۔
Add new comment