بے شک زمین پر امام اور خلیفہ ٔخدا کا وجود ، خداوند حکیم کے لطف و مھربانی کا نتیجہ ہے ، امام کا وجود امت اسلامی میں اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے، جیسا کہ صدیقہ طاہر حضرت فاطمہ زہرا(س)اپنے کلام میں وجود امام کے فلسفہ کو امت میں تفرقہ سے محفوظ رہنے کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں: ’’ وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا لَمّاً لِلْفُرْقَة‘‘(۱) ہم اہل بیت کی اطاعت امت محمدی میں نظم و ضبط کا سبب ہے اور ہماری امامت تفرقہ کو ختم کرنے کی وجہ بنتی ہے۔
یہ حدیث مذکور حقیقت میں زیارت جامعہ کبیرہ کی عبارت کا مصداق ہے کہ جو زیارت امام علی نقی (ع) سے نقل ہوئی ہے، اس زیارت میں ایک شیعہ مؤمن، اہل بیت کو خطاب کر تے ہوئے عرض کرتا ہے:’’وَ بِمُوَالاتِكُمْ تَمَّتِ الْكَلِمَةُ وَ عَظُمَتِ النِّعْمَةُ وَ ائْتَلَفَتِ الْفُرْقَة‘‘آپ ائمہ علیھم السلام کی ولایت کی برکت سے کلمہ توحید کامل ہوا ہے،نعمتوں کو عظمت ملی ہے اور تفرقہ، اتحاد و اتفاق امت میں تبدیل ہو گیا ہے۔(۲)
محمود ابن لبيد سے نقل ہوا کہ :میں نے دیکھا کہ جب رسول خدا (ص) دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت فاطمہ ہمیشہ شہداء کی قبور اور حضرت حمزہ کی قبر پر آتی اور وہاں گریہ کیا کرتی تھیں۔
ایک دن میں حضرت حمزہ کی قبر پر آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھی گریہ کر رہی ہیں، میں انکے پاس گیا، سلام کرنے کے بعد عرض کی: اے سیدۃ النساء بی بی، خدا کی قسم آپکا گریہ سن کر میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں، بی بی نے فرمایا:’’ اے ابو عمر یہ میرا حق ہے کہ میں گریہ کروں کیونکہ میں اپنے بہترین والد گرامی سے جدا ہو گئی ہوں اور ان سے ملنے کی مشتاق ہوں‘‘۔۔۔۔۔
محمود نقل کرتا ہے کہ میں نے انکی خدمت میں عرض کی: اے بی بی میرے دل میں کافی عرصے سے ایک سوال ہے۔ بی بی نے فرمایا:ہاں پوچھو، میں نے کہا: کیا رسول خدا نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی کی امامت کو صراحت سے بیان کیا تھا ؟
بی بی نے فرمایا: ’’بہت عجیب بات ہے کیا تم نے غدیر خم کے دن کو بھولا دیا ہے ؟‘‘ محمود نے کہا: نہیں، لیکن جو راز آپکے پاس ہے، میں وہ سننا چاہتا ہوں۔
حضرت زہرا نے فرمایا:’’ خداوند شاہد ہے میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: میں نے بہترین شخص حضرت علی کو تمہارے لیے اپنا جانشین بنایا ہے اور وہ میرے بعد امام و جانشین ہے، میرے دو نواسے (امام حسن و امام حسین) اور امام حسین (ع) کی نسل سے نو فرزند آئمہ ہیں کہ اگر انکی اتباع و پیروی کرو گے تو انھیں ہدایت شدہ اور ہدایت کرنے والا پاؤ گے لیکن اگر انکی مخالفت کرو گے تو قیامت تک تم لوگوں میں اختلاف باقی رہے گا‘‘ پھر بی بی نے فرمایا:
’’مثل الإمام مثل الكعبة إذ تؤتى ولا يأتي ... ثم قالت : أما والله لو تركوا الحق على أهله واتبعوا عترة نبيه لما اختلف في الله تعالى اثنان ، ولورثها سلف عن سلف وخلف بعد خلف حتى يقوم قائمنا التاسع من ولد الحسين ، ولكن قدموا من أخره وأخروا من قدمه الله‘‘
امام، کعبہ کی مانند ہے کہ اسکی طرف آیا جاتا ہے نہ کہ وہ کسی کی طرف آتا ہے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا: خدا کی قسم اگر حقدار کو اسکا حق دے دیتے اور رسول خدا کے اہل بیت کی پیروی کرتے تو حتی دو افراد کا بھی آپس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا اور اس حق کو آئمہ ارث میں لیتے رہتے یہاں تک کہ امام حسین کی نسل سے نواں فرزند قیام کرتا، لیکن انھوں نے آخری کو پہلے مقدم کیا اور خداوند نے جسے مقدم کیا تھا، اسے مؤخر کر دیا۔ (اسی لیے امت میں اب اختلاف ہے)۔(۳)
ولایت علی اتحاد و یکجہتی کا سبب
Wed, 07/28/2021 - 08:51
Add new comment