یہ دعا،بلند ترین مطالب ، فصیح عبارت اور انوکھی تعابیر کی ترجمان ہے۔ توحید ، توبہ ، تضرع؛ خدائی نعمتوں کی یاد دہانی ، مغفرت کی امید اور گناہوں کے بوجھ کا خوف اس دعا کے موضوعات میں شامل ہیں جو ہر مومن کو اس کی تلاوت کے لئے بے چین کر دیتا ہے۔
ماہ رمضان کی سحر میں پڑھی جانے والی ایک دعا "دعائے ابوحمزه ثمالی" ہے۔ یہ دعا امام علی ابن الحسین السجاد (ع) کی ایک مناجات ہے جسے "ابو حمزہ ثمالی" نے روایت کیا ہے اسی وجہ سے یہ دعا ان کے نام سے مشہور ہے۔ وہ تین اماموں ــ امام زین العابدین(ع)، امام محمد بن علی الباقر(ع) اور امام جعفر بن محمد الصادق (ع) ــ کے اصحاب میں سے تھے۔
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں: امام زین العابدین علیہ السلام رمضان کے مہینے میں بیشتر اوقات نماز میں مصروف رہتے تھے اور سحر کا وقت ہوتے ہی یہ دعا پڑھتے تھے۔
یہ دعا ،بلند ترین مطالب ، فصیح عبارت اور انوکھی تعابیر کی ترجمان ہے۔ توحید ، توبہ ، تضرع؛ خدائی نعمتوں کی یاد دہانی ، مغفرت کی امید اور گناہوں کے بوجھ کا خوف اس دعا کے موضوعات میں شامل ہیں جو ہر مومن کو اس کی تلاوت کے لئے بے چین کر دیتا ہے۔
امام روح اللہ خمینی (رہ) اس دعا کے بارے میں لکھتے ہیں: دعائے ابو حمزہ ثمالی مظاہرِ عبودیت کا ایک اعلی نمونہ ہے اور اس طرح کی دعا ادب و عبودیت کی زبان سے خدا کی بارگاہ میں عرض کرنے کے لیے بشر کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔(شرح جنود جہل و عقل، ص 146)
توحید افعالی
ــ مِن أينَ لِيَ الْخَيرُ يَا رَبِّ وَ لا يُوجَدُ إِلّا مِنْ عِنْدِكَ وَ مِن أَيْنَ لِيَ النَّجَاةُ وَ لا تُستَطَاعُ إِلّا بِكَ لا الَّذِي أحسَنَ استَغنَى عَن عَونِكَ وَ رَحمَتِكَ وَ لا الَّذِي أَسَاءَ وَ اجتَرَأَ عَلَيْكَ وَ لَم يُرْضِكَ خَرَجَ عَن قُدْرَتِك ــ مجھے کہاں سے بھلائی حاصل ہوسکتی ہے اے پالنے والے جب کہ وہ تیرے سوا کہیں موجود نہیں اور کہاں سے نجات مل سکے گی جبکہ اس پر تیرے سوا کسی کو قدرت نہیں نہ ہی کوئی نیکی کرنے میں تیری مدد اور رحمت سے بے نیاز ہے اور نہ ہی کوئی برائی کرنے والا تیرے سامنے جرأت کرنیوالا اور تیری رضا جوئی نہ کرنیوالا تیرے قابو سے باہر ہے۔
امام(ع)دعا کے انہی پہلےجملوں میں ہی اپنے خضوع کو اللہ کی لامتناہی قدرت کے سامنے ظاہر کرتے ہیں اور خدا کی توحید کا "فعل" اور "اثر" میں اعتراف فرماتے ہیں۔
ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمیں اتنی نیکیاں اور نعمتیں ملتی ہیں کہ اگر ہمارا ایمان کمزور ہو تو ممکن ہے کہ ہم اس نیکی کو انسانوں کی جانب منسوب کرنے کی غلطی کربیٹھیں تاہم ، امام (ع) تمام نیکیوں اور نعمتوں کو صرف اور صرف خدا کی طرف منسوب بیان فرماتے ہیں۔
توحید عبادی
ــ الحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي لا أَدْعُو غَيْرَهُ وَ لَوْ دَعَوْتُ غَيْرَهُ لَمْ يَسْتَجِبْ لِي دُعَائِي؛ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لا أَرْجُو غَيْرَهُ وَ لَوْ رَجَوْتُ غَيْرَهُ لَأَخْلَفَ رَجَائِي ــ
حمد ہےاس اﷲ کیلئے کہ جس کے سوا میں کسی کو نہیں پکارتااوراگر اس کے غیر سے دعا کروں تو وہ میری دعا قبول نہیں کرے گا حمد ہے اس اﷲ کیلئے جس کے غیر سے میں امید نہیں رکھتا اور اگرامید رکھوں بھی تو وہ میری امید پوری نہ کریگا۔
اس مقام پر ، خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کے بے فائدہ اور فضول ہونے پر توجہ دی گئی ہے، یعنی - جیسا کہ گذشتہ بیانات میں بھی بیان کیا گیا – لائق عبادت و بندگی و دعا و مناجات وہ ہے کہ جو ربوبیت و قدرت رکھتا ہو اسے پورا کرنے پر؛ اور سوائےخدا کے کوئی بھی مستقل طور پر انہیں پورا نہیں کرسکتا۔
لہذا ، امام سجاد (ع) فرماتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست، باب اجابت سے ٹکرانے والی نہیں ہے،اور خدا کے علاوہ کسی اور سےامید فضول اور بے کار ہے اور سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔
تحریر: سید لیاقت علی کاظمی الموسوی
Add new comment