مسلم مفکرین نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے اورخدا کے عادل ہونے کے مسئلہ کا دفاع کرنے کے بعد شرور اور برائی کے مسئلہ کا تجزیہ پیش کیا ہے اور اس سلسلہ میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کا جواب پیش کیا ہے،قرآن کریم کی آیتوں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی خلقت کا اصل مقصدہےاچھائی اور نیکی کی بنیادوں پر استوارکیا گیا ہے اور یہ برائی اور شرور خود انسان کے ہاتھوں کا کیا دھرا ہےجو چیزوں کے غلط استعمال کی بنا پر ہےظہور پذیر ہوتے ہیں
ہر سال، کچھ جان لیوا حوادث جیسے، سیلاب اور زلزلے بہت سے لوگوں کو موت کے منھ میں دھکیل دیتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو بے گھر بنا جاتے ہیں ، انسان کی تخلیق کے آغاز کے بعد سےہی، بہت سارے بچےناقص شکل میں پیدا ہوتے رہے ہیں ، بیماری اور بھوک نے بے شمار لوگوں رنج و غم کے بھاری پہاڑ تلے دبا کر رکھ دیا ہے، پوری تاریخ میں، کچھ لوگ ایسے بھی گذرے ہیں جو اپنے ہی جیسے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور اپنی پست خواہشات کے حصول کے لیے اپنے ہی جیسے دوسرے لوگوں کے پیٹ چاک کرڈالےہیں اور سروں کو تن سے اڑا ڈالا ہے،کیا خدا برائی سے خالی دنیا نہیں بناسکتا تھا ؟ کیا خدا ان مصیبتوں سے واقف نہیں ہے اور نہیں جانتا کہ انہیں کیسے روکنا ہے؟ کیا خدا اپن مخلوقات کا خیر خواہ نہیں ہے ؟[1]، ڈیوڈ ہوم(1711 – 1776 م) کے مطابق ،یہ وہ سوالات ہیں جو (کم از کم) اپيکور (341 – 270 قم)کے زمانے سے ہی اٹھائے گئے ہیں اور اب تک جن کا جواب نہیں دیا جاسکا ہے[2]۔
مسلم مفکرین نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے اورخدا کے عادل ہونے کے مسئلہ کا دفاع کرنے کے بعد شرور اور برائی کے مسئلہ کا تجزیہ پیش کیا ہے اور اس سلسلہ میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کا جواب پیش کیا ہے،قرآن کریم کی آیتوں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی خلقت کا اصل مقصدہےاچھائی اور نیکی کی بنیادوں پر استوارکیا گیا ہے اور یہ برائی اور شرور خود انسان کے ہاتھوں کا کیا دھرا ہےجو چیزوں کے غلط استعمال کی بنا پر ہےظہور پذیر ہوتے ہیں[3]،مسیحی مفکرین میں سے ايرنائوس (140؟ – 202؟ م)وہ پہلا شخص ہے جس نے – انسان کے مختار ہونے کے نظریہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے – شرور کی توجیہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے[4]،کتاب عہد عتیق میں بھی بنیادی طور پر اسی مسئلہ کا ذکر کیا گیا ہےاور حضرت ایوب ؑکے مصائب کی دلیلوں کو بیان کیا گیا ہے[5]،آج کل یہ مسئلہ نہ صرف یہ کہ صفات خدا کو چیلنج کررہا ہےبلکہ «الحاد کی پناہگاہ» بھی بنا ہوا ہے اور اس مسئلہ کو اٹھا کر ملحد قسم کے لوگ خدا کے انکار پر اسے بطور دلیل پیش کرتے ہیں[6]،یہاں تک کہ ملحدین نے ادیان ابراہیمی میں «خدا کے وجود » کو یہ دیکھتے ہوئے کہ «شر اور برائی کا بھی وجود » ہےاسے منطقی طور پر متناقض جانا ہے؛جیسا کہ جان مکي (1917 – 1981 م)اپنے مشہور مقالہ«شر اور قدرت مطلق» – اس چیز کی وضاحت میں جسے آج کل « شرکا منطقی مسئلہ» کے نام سے یاد کیا جاتاہے – میں کہتا ہے:
تناقض وتضاد کو[دو قضایا «خدا وجود رکھتا ہے» اور «شر وجود رکھتا ہے»کے درمیان] ظاہر کرنے کے لیے ہمیں کچھ الحاقی مقدمات ۔۔۔جو کہ «خير»، «شر» اور «قادر مطلق»جیسے الفاظ سے مربوط ہیں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ الحاقی مقدمات مندرجہ ذیل ہیں:
[الف] خیر کا تضاد شر ہے؛کچھ اس طرح کہ ایک خیر خواہ موجود، ہمیشہ سے ہی موجود ہے تاکہ وہ شر کو اسکی جڑسمیت اکھاڑ پھینکے۔
[ب] وہ چیز جو ایک قادر مطلق انجام دینے پر قدرت رکھتا ہے اسکی کوئی حد نہیں ہے۔
ان دو مقدمات کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودِخیر خواہ اور قادر مطلق شر کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے، لہذا، مندرجہ ذیل دو بیانات آپس میں مطابقت نہیں رکھتے:«موجودِ خيرخواه اور قادر مطلق وجود رکھتا ہے» اور «شر وجود رکھتا ہے»[7]۔
شر کا انکار یا صفات کا انکار؟
الٰہی مذاہب کے اکثر پیروکاروں نے مذکورہ چار تجویزات کو مسترد کئے بغیر ہی کوشش کی ہے کہ انکی توجیہ پیش کریں ،اس کے باوجود، ان چاروں بیانات کے سلسلہ میں ان کے کچھ مخالفین بھی موجود ہیں۔
بعض ادیان و مکاتبِ ابراہیمی اور غیر ابراہیمی، شر کو ایک وہم سے زیادہ کچھ اور نہیں سمجھتے[8]،جبکہ کچھ دوسرے گروہ شر کے وجود کو مسترد کرنے کے لیے انسان کے قوائے ادراکی میں پائے جانے والے نقص کو بنیاد بناتے ہوئے اسے ہائیلائٹ کرتے ہیں[9]، اور بعض اوقات انسانی قوت مدرکہ کے اہم فیصلہ کو بھی بے اعتبار قرار دیتے ہیں،اور اس نکتہ پر زور دیتے ہیں کہ «خدا کی مصلحت» «ہماری مصلحت سے»برتر و بہتر اور وہ ہم سے زیادہ حقیقتِ حال سےآگاہ ہے[10]۔
دوسری طرف،خدا کو ماننے والوں کا ایک گروہ خدا کی بعض صفات میں شرور کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیےاس پر تجدید نظر کرتے ہوئے الٰہی مذاہب کے روایتی نقطۂ نظر کومسترد کردیا ہے،اس سے پہلے کی بحث میں خدا کی قدرت کو محدود بنانے کے سلسلہ میں الٰہیات پوئشی کے ماہرین اور ان کے اقوال ونظریات سے ہم واقف ہوچکے ہیں[11]، جان اسٹوارٹ ميل / John Stuart Mill (1806 – 1873 م) بھی اسی نظریہ کی بنیاد پر خدا کےعلم و قدرت مطلق کا انکار کرتا ہے[12] ، ويلیم جيمز/ William James (1842 – 1910 م)بھی شرور اور برائی کے مسئلہ کوحل کرنے کا واحد طریقہ خدا کے علم و قدرت کومحدود قرار دینے میں ہی سمجھتا ہے[13]، اسی طرح ابن میمون کے مطابق جو لوگ خدا کو جزئیات کا عالم نہیں مانتے ؛ان لوگوں کے نہ ماننے کی اصلی وجہ یہی دنیا میں پائی جانے والی برائی اور شرورہے[14]،اس سے بڑھ کر خدا پر ایمان رکھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے مل جائیں گے جو«خدا کی خيرخواہی کو پہلی تخلیق کے برابر » جانتے ہیں «نہ یہ کہ باپ کی طرح مسلسل مشفقانہ نگاہ»بنائے رکھنے کے[15]۔
اس نقطۂ نظر کی آمد کے ساتھ، وہ قیمت جو شرور کی توجیہ کے لیے دینی پڑے گی وہ یہ ہوگی کہ ہمیں خدا کو ایک گھڑی بنانے والے یا کسی معمار کے طور پر ماننا ہوگا کہ جو اپنی مصنوعات کو بنانے کےبعد، ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔
…………
منابع و ماخذ:
[1]۔ رجوع فرمائیں:اگوسٹين، اعترافات، ترجمه سايه ميثمي، ص204 ـ 206 (دفتر هفتم، فصل پنجم)۔
[2]۔ David Hume, Dialogues Concerning Natural Religion, part 10, p 157۔
[3]۔ < (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ (جانشین) بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو (خلیفہ) بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ حالانکہ ہم تیری حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس (پاکیزگی بیان) کرتے ہیں۔ فرمایا: یقینا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ "> بقره (2)، 30۔
[4]۔ اس نے ،کتاب بر ضدّ بدعتها (Against Heresies)کے سینتیسویں اور اڑھتیسویں باب میں اس مطلب کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مکمل متن کو من درجہ ذیل منبع میں پیدا کیا جاسکتا ہے:
Robertson & Donaldson (eds۔), The Ante ـ Nicene Fathers, V۔ 1, pp 315 ـ 567۔
[5]۔ اس کتاب کے ایک حصے میں، جناب ایوبؑ کے مصیبت کی شدت اس طرح سے بیان کی گئی ہے: "اے کاش میں مردہ دنیا میں آیا ہوتا؛اور کبھی سانس نہ لی ہوتی اور روشنی نہ دیکھی ہوتی۔ ۔۔۔ زندگی کی روشنی کیوں کسی ایسے شخص پر پڑتی ہے کہ جو کوئی اختیار نہیں رکھتا،اور خدا نے امید کے سارے وازے اس پربند کردیئے ہوں!> عهد عتيق، ايوب، 3: 16 و 24۔
[6]۔ See: Hans Kung, On Being a Christian, trans۔ By Edward Quinn, p 431۔
[7]۔ J۔ L۔ Mackie, "Evil and Omnipotence" in: Urban & Walton (eds۔), The Power of God, p 18۔
[8]۔ رجوع فرمائیں: رابرت هوم، اديان زنده جهان، ترجمه عبدالرحيم گواهي، ص358؛
W۔ J۔ Whalen, "Eddy, Mary Baker" in: New Catholic Encyclopedia, V۔ 5, p 102۔
[9]۔ رجوع فرمائیں: ايان باربر، علم و دين، ترجمه بهاءالدين خرمشاهي، ص48۔
[10]۔ من جہ ذکر نکات بائبل کی آیات میں سے ماخوذ ہیں: < اسی طرح کہ جیسے آسمان زمین سے بہت زیادہ بلند ہے، میرے طریقے بھی تمہارے طریقوں سےاورمیری فکر تمہاری فکروں سے بہت زیادہ اعلی اور بلند و برتر ہے > اشعيا، 55: 9۔
[11]۔ گزشتہ حوالہ بیان کے علاوہ، کبھی یہ گروہ <ق ت مطلق> کو انسانی فہم سے بالاتر شمار کرتا ہے، اور اس طرح شرور کے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے صورت مسئله کو ابهامآلود بنادیتا ہے۔ رجوع فرمائیں:
Charles Hartshorne, "The Mystery of Omnipotence Is Too Deep for Human Reason" in: Urban & Walton (eds۔), The Power of God, p 250۔
[12]۔ H۔ P۔ Owen, op۔cit, p 346۔
[13]۔ William James, A Pluralistic Universe, pp 310 ـ 311۔
[14]۔ ابن ميمون، دلالة الحائرين، ص518، 519۔
[15]۔ ايان باربر، علم و دين، ترجمه بهاءالدين خرمشاهي، ص52۔ شرور کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے خدا کی خیر خواہی کے انکارکی شکلوں سے آشنائی کے لیے ، رجوع فرمائیں: ماکس وبر، دين، ق ت، جامعه، ترجمه احمد تدين، ص412، 413؛ جان هاسپرس،در آمدي بر تحليل فلسفي، ترجمه موسي اکرمي، ص544۔
Add new comment