بڑے اہداف کے حصول کے لئے اسباب سے توسل ، ـ خواہ انسان کی مادی زندگی میں خواہ اس کی معنوی حیات میں- قدرتی اور منطقی اور عقلی نقطہ نظر سے بھی ایک پسندیدہ اور ضروری امر ہے اور مسلمین کی روش و سیرت میں بھی رائج رہا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری سے قبل کوئی بھی مسلمان توسل کی جائز شرعی حیثیت میں شک و شبہہ روا نہیں رکھتا تھا۔ دور معاصر میں وہابیوں نے ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہوئے توسل کے بارے میں بعض شبہات و اعتراض پیدا کئے ہیں جنہیں تمام اہل تشیع اور اہل سنت کی غالب اکثریت نے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
بیشک انسان مادی اور معنوی کمالات کو حاصل کرنے کے لئے اپنے علاوہ کسی دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ عالم ، اسباب و مسببات کے نظام کی بنیاد پر قائم ہے۔ مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرنے کے لئے اسباب اور وسیلوں سے متمسک ہونا اس نظام کا لازمہ ہے۔
اس وجہ سے قرآن کریم انسان کو معنوی کمالات اور بارگاہ خداوندی سے تقرب حاصل کرنے کے لئے اسباب سے متوسل ہونے کا حکم دیتا ہے۔
’’ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ وَ جاهِدُوا في سَبيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون ‘‘ (مائدہ/35) ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اسکی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بھی دعا کے وقت اولیاء خدا سے توسل کی تاکید کی گئی ہے۔
جیسا کہ حدیث نبوی میں جو شیعہ اور سنی کے نزدیک معتبر ہے ذکر ہوا ہے۔
’’كُلُ دُعَاءٍ مَحْجُوبٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّد‘‘ہر دعا محجوب ہے (یعنی قبول نہیں ہوگی) مگر یہ کہ محمد و آل محمد پر صلواة بھیجی جائے۔ [1]
اس بناء پر جس طرح دعا کی اصل وسیلہ اور اسباب رحمت سے ہے اور خدا سے مستقیم حاجت طلب کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح دعا کے وقت اولیاء الہی سے متوسل ہونا بھی اسباب رحمت اور خدا سے نزدیک ہونے کا وسیلہ ہے۔
مذکورہ آیت و روایت کا مقصد یہ ہے کہ ایک مرتبہ انسان کسی چیز کا واسطہ دیتے ہوئے اپنی حاجت کو سیدھے خدا سے طلب کرتا ہے مثال کے طور پر کہتا ہے پرور دگارا تجھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہلبیت علیہم السلام کا واسطہ ہے کہ ہماری حاجت کو پوراکر۔ایک مرتبہ انسان خدا سے سیدھے نہیں بلکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہلبیت علیہم السلام سے متوسل ہوتے ہوئے حاجت کی درخواست کرتا ہے۔ مثلاًً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہلبیت علیہم السلام سے درخواست کرتا ہے کہ وہ خدا کی بارگاہ میں دعا کر دیں۔
مسئلۂ توسل مسلمانوں ـ خواہ شیعہ خواہ سنی ـ کی اکثریت کے نزدیک رائج و مقبول تھا۔ لیکن آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نامی شخص اٹھا اور دعوی کیا کہ توسل شرک ہے اور اس کا قائل ہونا بدعت ہے۔ دور معاصر میں بھی وہابی قرآن کی ظاہر پرستانہ تفسیر کرکے دعوی کرتے آئے ہیں کہ توسل کا عقیدہ اصول توحید کے منافی ہے۔ ابن تیمیہ نے دعوی کیا[2] کہ صرف اعمال صالح نیز پیغمبر اور صالحین کی دعا ـ وہ بھی صرف ان کی حیات کے زمانے میں ـ اللہ کے تقرب کا وسیلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؛ چنانچہ خدا سے طلب حاجت کرتے وقت خدا کو پیغمبر(ص) کی قسم دلانا یا پیغمبر(ص) اور صالحین کے مقام و منزلت کا واسطہ دینا بدعت اور ناجائز ہے۔
چنانچہ پیغمبر(ص) اور دوسروں کی ذات سے توسل کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے اور ان سے براہ راست اور روبرو دعائے خیر کی درخواست کرنا بھی صرف ان کی حیات کے زمانے میں جائز اور صحابہ کی سنت شمار ہوتا تھا اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے بدعت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔[3]
ایک دوسرے مقام پر اس طرح نقل ہوتا ہے کہ ’’ وان قصدهم الملائکة والانبیاء ، والاولیاء یریدون شفاعتهم والتقرب الی الله بذلک ، هو الذی احل دماء هم ‘‘[4]یہ لوگ ملائکہ ، انبیاء اور اولیاء سے شفاعت طلب کرتے ہیں اور انھیں تقرب خدا کا وسیلہ قرار دیتے ہیں یہی چیز ان کے مال کے حلال اور قتل کے جائز ہونے کا باعث بنی ہے.
در حالیکہ ہم قرآن و حدیث کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ اولیاء الہی سے توسل کرنا شرک ہے اور توسل کرنے والے کے قتل کا سبب ہے جیسا کہ وہابی افراد عقیدہ رکھتے ہیں، بلکہ اسکے بر خلاف قرآن مجید میں صاف لفظوں میں اعلان ہے ’’وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحيماً‘‘ )نساء/۶۴۔ (اورہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکم خدا سے ان کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔
ممکن ہے کوئی کہے یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جس دور میں رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) زندہ تھے تو زندہ سے مانگنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اب رسول کا انتقال ہوگیا ہے تو کیسے ان سے استغفار کی درخواست کی جاسکتی ہے؟ جیسا کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے، اس کا مختصراً جواب یہی ہے کہ در اصل پیغمبر اسلام ظاہرا ہمارے درمیان میں نہیں ہیں مگر کسی چیز کا سامنے نہ ہونا اسکے موت کی دلیل نہیں ہوتی ، آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کا درجہ شہداء سے کے درجوں سے زیادہ ہے ، اور شہداء وہ مقدس افراد ہیں جو خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور اس سے رزق حاصل کر رہے ہیں۔[5] گویا جس طرح سے شہداء زندہ و جاوید ہیں اسی طرح سے رسول اسلام اور دوسرے اولیاء خدا زندہ ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سے رسول سے ان کی زندگی میں درخواست و توسل کرتے تھے اب بھی ان سے توسل و درخواست کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] بحار الانوار، ج27، ص260، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى ، چاپ دوم۔
[2] قاعدة جلیلة فی التوسل و الوسیلة، ج1، ص48-51، احمد ابن تیمیه، به کوشش زهیر شاویش، بیروت، 1390ہجری قمری/1970عیسوی۔
[3] تفسیر المنار، ج6، ص371-377 و ص11-7، محمد رشید رضا، تفسیر المنار، بیروت، دارالمعرفه۔
[4] کشف الشبہات ، ص ٥٨، ط، دار العلم . بیروت۔
[5] آل عمران/۱۶۹۔
Add new comment