خلاصہ: کم ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت زیادہ ہوگی اور اگر زیادہ ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت کم ہو گی۔
بعض موقعوں پر قرض کا دینا واجب اور نہ دینا حرام ہے اور بعض جگہوں پر قرض دینا مستحب اور نہ دینا مکروہ ہے اور جب قرض کی ضرورت نہ ہو تو قرض کا لینا مکروہ ہے لیکن ضرورت کے وقت قرض لینے سے اسکی کراہت میں کمی واقع ہو جاتی ہے، کراہت کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق ضرورت کے کم یا زیادہ ہونے پر ہے، پس اگر کم ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت زیادہ ہوگی اور اگر زیادہ ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت کم ہوگی۔
بعض موقعوں پر کراہت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور قرض لینا واجب ہو جاتا ہے مثال کے طور جہاں پر جان اور ناموس کی حفاظت قرض لینے پر موقوف ہو تو قرض لینا واجب ہو جاتا ہے۔
امام علی(علیه السلام) قرض لینے سع منع کرنے کے بارے میں فرمارہے ہیں: «إِیَّاکُمْ وَ الدَّیْنَ فَإِنَّهُ هَمٌّ بِاللَّیْلِ وَ ذُلٌّ بِالنَّهَار؛ قرض لینے سے پرہیز کرو کیونکہ وہ رات میں غم اور اندوہ کا سبب اور دن میں ذلت اور خواری کا سبب ہوتا ہے»[بحارالانور،ج:۱۰۰، ص:۱۴۱]۔
قرض لینے کے بہت زیادہ برے نتائج نکلتےہیں اوپر بیان کی گئی حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ انسان کی بہت زیادہ پریشانیاں اسی قرض کی وجہ ہے.
*بحارالانوار، محمد باقر مجلسی، دار إحياء التراث العربي, بیروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳۔
Add new comment