خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی وضاحت میں بیان کیا جارہا ہے کہ قرآن اور دین کے حاملین کے چند گروہ ہیں، ان میں سے دوسرا گروہ معانی کا حامل ہے۔
خطبہ فدکیہ جو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا خطبہ ہے، آپؑ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا مقام بیان کرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے خطبہ کو جاری رکھا۔ "ثُمَّ الْتَفَتَتْ إلی الَمجْلِسِ وَ قالَتْ: اَنْتُمْ عِبادَ اللّهِ نُصْبُ أَمْرِهِ وَ نَهْيِہِ، وَ حَمَلَةُ دينِهِ وَ وَحْيِهِ، وَ اُمَناءُ اللّهِ عَلی اَنْفُسِكُمْ وَ بُلَغاؤُهُ إلَی الْأُمَمِ"، "پھر آپؑ نے (مسجد میں) موجود لوگوں کو مخاطِب ہوتے ہوئے فرمایا: اے اللہ کے بندو، تم اس کے امر اور نہی کےمخاطَب ہو، اور اس کے دین اور اس کی وحی کو اٹھانے والے ہو، اور اپنے اوپر اللہ کے امین ہو، اور اس کے (پیغام کو) امتوں تک پہنچانے والے ہو"۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]
وضاحت:
قرآن کے حاملین اور علم کے حاملین اور دین کے حاملین کے چند گروہ ہیں، ان میں سے دوسرا گروہ معانی کا حامل ہے۔
قرآن اور دین کے معانی کے حاملین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے، پھر اگر اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر عمل کریں تو قرآن اور دین کے حقیقی حاملین ہیں اور قابل احترام ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث میں قرآن پر عمل کرنے والے حاملین کے احترام کے بارے میں تاکید ہوئی ہے: "إِكْرَامَ حَمَلَةِ الْقُرْآنِ الْعَامِلِينَ"، تو جنہوں نے قرآن کریم کو اپنی گنجائش کے مطابق سمجھ لیا اور اس پر عمل کیا تو وہ قابل احترام اور قابل قدر حاملین ہیں۔
لہذا اگر قرآن اور دین کو سمجھ لیں، لیکن اس پر عمل نہ کریں تو اہل کتاب میں سے ان افراد کا مصداق ہوں گے جن کا تذکرہ سورہ جمعہ میں ہوا ہے اور ان کی اس گدھے سے مثال دی گئی ہے جو کتابوں کے بوجھ کو اٹھاتا ہے اور اس کے معانی سے بے خبر ہے یعنی جو شخص عالم ہے اور عمل نہیں کرتا اس کا جاہل سے کوئی فرق نہیں ہے۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:"فَقَدْ نَبَذَ الْكِتَابَ حَمَلَتُهُ، وَتَنَاسَاهُ حَفَظَتُهُ"، "یقیناً کتاب (قرآن) کے حاملین اسے چھوڑ دیں گے اور اس کے حافظ، اسے بھلا دیں گے"۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷]
لہذا یہ لوگ اگرچہ دوسرے معنی کے مطابق قرآن کے حامل ہیں، لیکن انہوں نے حامل ہونے میں خیانت کی ہے اور آیتِ امانت کے مطابق وہ "(ظَلوم) بہت ظلم کرنے والے حاملین" ہیں۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷۔
* ماخوذ از: قرآن شناسی، ص۱۷، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment