خلاصہ: قرآن کریم میں تدبر کے سلسلہ میں چار آیتیں ذکر ہوئی ہیں، ان آیات میں قرآن کریم میں تدبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تین آیات کا انداز اور سیاق ایک طرح کی مذمت اور اعتراض کے ساتھ ہے۔ قرآن میں تدبر کے بغیر نہ قرآن کا خدا کی طرف سے ہونا واضح ہوتا ہے، نہ قرآن کی خیروبرکت سے فیض یاب ہوا جاسکتا ہے، نہ شک و شبہ کے اندھیرے سے بچنا ممکن ہے اور نہ ہی مضبوط ایمان و یقین حاصل ہوسکتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تدبر کے لغوی لحاظ سے معنی "گہرائی سے غور کرنا اور انجام کے بارے میں سوچنا" ہے۔ یہ لفظ چار بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے: قرآن کریم نے تین آیات میں لوگوں کو اپنے پیغام کی گہرائی اور مقاصد کے بارے میں تدبر کرنے کا حکم دیا ہے، اِن آیات کا انداز اور سیاق ایک طرح کی مذمت اور اعتراض کے ساتھ ہے:
"اَفَلَمْ یَدَّبَّروُا الْقَوْلَ اَمْ جاءَهُمْ ما لَمْ یَأْتِ اباءَهُمُ الْاوَّلینَ" (سورہ مومنون، آیت ۶۸) کیا ان لوگوں نے ہماری بات پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی چیز آگئی ہے جو ان کے باپ دادا کے پاس بھی نہیں آئی تھی۔
"اَفَلا یَتَدَبَّروُنَ الْقُرآنَ أَمْ عَلی قُلُوبٍ أَقْفالُها" (سورہ محمد، آیت ۲۴) تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔
اس آیت کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس کتاب کی حقانیت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں یا اس کا انکار کرتے ہیں اور نیز وہ لوگ جو تقلید کرتے ہوئے معرفت کے بغیر، اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حقانیت میں غور نہیں کرتے۔
"أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا" (سورہ نساء، آیت۸۲) کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔
چوتھی آیت میں، قرآن کریم کے خیر و برکت سے بھرپور مطالب بیان ہوئے ہیں تاکہ اس میں تدبر کرنے سے، اس کی عظیم برکات سے بہرہ مند ہوں۔ "کِتابٌ اَنْزَلْناهُ اِلَیْکَ مُبارَکٌ لِیَدَّبَّروُا ایاتِهِ وَ لِیَتَذَکَّرَ اوُلُوا الْالْبابِ" (سورہ ص، آیت ۲۹) یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبانِ عقل نصیحت حاصل کریں ۔
اِن آیات اور ان کے سیاق میں غور و خوض کرنے سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ "قرآن کا خدا کی طرف سے ہونا"، "قرآن میں تدبر" کے بغیر واضح نہیں ہوتا، اور نیز "قرآن میں تدبر" کے بغیر، کلام اللہ کے لامحدود ذخائر اور بھرپور خیر و برکت سے بہرہ مند ہونا ممکن نہیں ہے اور نیز شک و شبہ اور نفاق کی حیرت کے اندھیرے سے اپنے آپ کو نہیں بچایا جاسکتا اور نہ ہی راسخ ایمان اور مضبوط یقین حاصل کیا جاسکتا ہے۔نیز "قرآن میں تدبر" کے بغیر آیات کی گہرائی کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اس کے حیرت انگیز حقائق تک رسائی ناممکن ہے۔ جو شخص آیات میں تدبر کرے، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ، قرآن کی جگہ جگہ پر خدا کے حضور کو محسوس کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ماخوذ: کتاب قرآن شناسی از دیدگاه قرآن و عترت، تصنیف: صفورا بیستونی)
Add new comment