خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی روشنی میں مضبوط دین کی طرف ہدایت اور راہِ مستقیم کی طرف دعوت کو بیان کیا جارہا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: "وَ قَامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدَایَۀِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ، وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ، وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ"، اور (رسولؐ اللہ) لوگوں میں ہدایت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ان کو گمراہی سے نجات دی، اور انہیں اندھے پن سے (نکال کر) بینائی (کی طرف) لائے، اور انہیں مضبوط دین کی طرف ہدایت کی، اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف پکارا"۔
وضاحت:
"وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ"
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ان لوگوں کو قویم اور مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی۔
دین کا قویم اور مضبوط ہونا، دو لحاظ سے ہے:
۱۔ دین کی حکمتیں، تعلیمات اور احکام مضبوط ہیں اور ان میں کوئی نقص اور لغزش نہیں ہے، کیونکہ اس کی تعلیمات حق ہیں اور انہیں باطل اور ردّنہیں کیا جاسکتا اور اس کے احکام بھی انتہائی خوبصورت ہیں اور حقیقی مصلحت پر قائم ہیں۔
۲۔ قویم اور مضبوط دین، انسان کی مضبوطی اور پائداری کا باعث ہے اور انسان کو لغزشوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے، کیونکہ انسان کو وہی لغزش سے بچاسکتا ہے جس کے اپنے اندر لغزش نہ ہو اور وہی انسان کو مضبوطی سے قائم رکھ سکتا ہے جو خود مضبوط ہو۔
"وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ"
اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ان لوگوں کو مستقیم راستے کی طرف دعوت دی۔
دین بھی قویم ہے اور راستہ بھی مستقیم ہے یعنی جس دین پر عمل کرنا چاہیے وہ پائدار اور مضبوط ہے اور جس راستے پر چلنا چاہیے اس میں بھی استقامت اور پائداری ہے اور اس میں کوئی کجی، ٹیڑا پن اور گمراہی نہیں ہے۔
قوام اور پائداری کی ایک طرف میں دین ہے جو "دین قویم" ہے اور دوسری طرف راستہ ہے جو "مستقیم راستہ" ہے اور تیسری طرف پائداری اختیار کرنے والا انسان ہے جیسا کہ سورہ تکویر کی آیت ۲۸ میں ارشاد الٰہی ہے: "إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ . لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ"۔
*احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔
* ترجمہ آیات از: علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ۔
* اقتباس از: پیامبر شناسی، ص۶۰، محمد علی مجد فقیہی۔
Add new comment