خلاصہ: انسان نیک اور صالح تربیت کے لئے اسے اپنا دوست یا دشمن بناسکتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہے، ان کی نیکیوں کا صلہ والدین کو دنیا میں بھی ملتا ہے اور مرنے کے بعد بھی صدقۂ جاریہ کی شکل میں ملتا ہے، ہر مؤمن نیک اولاد کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے یہ دعاء کی«رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَ ذُرِّیَّاتِنا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنا لِلْمُتَّقینَ إِماماً[سورۂ فرقان، آیت:۷۴] اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے»،
لیکن اسی وقت اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک بن سکتی ہے جب انسان اپنے بچوں کے دل میں خدا اور معصومین(علیہم السلام) کی محبت کو بھر دے او انھیں نماز، روزہ کا پابند اور سچا مؤمن بنانے کی کوشش کرتا رہے اور اسکے لئے اللہ سے دعائیں بھی کرتا رہے جیسا کہ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے دعاء مانگی:«رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآء[سورۂ ابراھیم، آیت:۴۰] پروردگار مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلے»۔
جو اولاد خدا کی بندگی نہیں کرتی خدا انھیں دشمن سے تعبیر کررہا ہے:«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْواجِکُمْ وَ أَوْلادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوهُمْ[سورۂ تغابن، آیت:۱۴]ایمان والو تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں لہذا ان سے ہوشیار رہو»
Add new comment