خلاصہ: کنجوسی سے پرہیز کرنی چاہیے، کیونکہ کنجوس آدمی ذلت و ننگ و عار کا شکار ہوجاتا ہے۔
بخل اور کنجوسی یہ ہے کہ انسان مالدار ہونے کے باوجود، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے لوگوں کو نہ دے اور اس کے مدمقابل سخاوت ہے کہ بعض اوقات سخی آدمی اپنی ضرورت والی چیزیں بھی ضرورتمند افراد کو دے دیتا ہے اور خود کم سے کم چیزوں پر قناعت کرتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "من بخل بماله ذلّ"، "جس نے اپنے مال میں کنجوسی کی، ذلیل ہوا"۔ [غررالحکم، ص۵۷۶، ح۲۷۶]
نیز آپؑ ارشاد فرماتے ہیں: "البُخْلُ عار"، "کنجوسی (ننگ و) عار ہے"۔ [نہج البلاغہ، حکمت ۳]
کنجوسی اس لیے ننگ و عار ہے:
۱۔ کنجوسی کی وجہ سے لوگ کنجوس آدمی سے نفرت کرتے ہیں اور قریبی لوگ بھی اس سے دوری اختیار کرتے ہیں۔
۲۔ کنجوسی قساوت اور سنگدلی کا سبب بنتی ہے، کیونکہ کنجوسی آدمی ضرورتمند اور غریبوں کی فریاد سنتا ہے اور ان کے قابل رحم چہرے دیکھتا ہے، اس کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتا تو اس سے اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔
۳۔ کنجوسی باعث بنتی ہے کہ بہت سارا مالی سرمایہ، کاروبار میں نہ آئے اور اسے ذخیرہ بنا کر رکھ دیا جائے، جبکہ معاشرے میں غریب لوگوں اس کے ضرورتمند ہوں۔
۴۔ بعض اوقات کنجوس افراد اپنی بیوی بچوں کے بارے میں بھی کنجوسی کرتے ہیں۔
۵۔ کنجوس لوگ اپنے مال سے بیحد اور غیرعاقلانہ محبت کرنے کی وجہ سے، معاشرتی سوچ کے لحاظ سے بہت کمزور ہوتے ہیں۔
بخل اور کنجوسی کی قرآن کریم کی کئی آیات میں مذمت کی گئی ہے، ان میں سے ایک، سورہ نساء کی آیت ۳۷ ہے جس میں ارشاد الٰہی ہے: "الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاھُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِيناً"، "جو خود کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کرنے کا حکم (ترغیب) دیتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے دیا ہے وہ اسے چھپاتے ہیں ہم نے ایسے ناشکروں کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے"۔
* غررالحکم و دررالکلم، آمدی، ص۵۷۶، ص۲۷۶۔
* نہج البلاغہ، حکمت ۳۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment