خلاصہ: سنگدلی کے مختلف اسباب ہوتے ہیں، ان میں سے ایک گانا اور میوزک وغیرہ ہے۔
بعض اوقات آدمی کسی محفل میں جاتا ہے اور چند حدیثیں سناتا ہے تو بہت سارے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور بعض صرف دیکھتے رہتے ہیں جیسے ان میں کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان دو طرح کے لوگوں میں کیا فرق ہے؟
فرق سنگدلی میں ہے۔ جن افراد پر نصیحت اثرانداز ہوتی ہے وہ قسی القلب نہیں ہیں اور جن پر نصیحت اثرانداز نہیں ہوتی وہ قسی القلب ہیں۔
انسان کو ہوشیار رہنا چاہیے، بیداری کے اسباب ہمارے آس پاس پائے جاتے ہیں، کم از کم دوستوں یا پڑوسیوں کی موت ہماری بیداری کے لئے کافی ہونی چاہیے۔
دنیا کا نظام علل و اسباب کے مطابق چل رہا ہے، اسی لیے کوئی دل بلاوجہ سخت یا نرم نہیں ہوتا۔ بعض گناہ دل کی سختی کا باعث بنتے ہیں، مثلاً بیہودہ اور مہمل باتیں جیسے گانے سننا دل کو سخت کردیتا ہے۔ گانے اور غنا سے آدمی اس قدر نفسانی خواہشات میں غرق ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ گانے، میوزک اور غنا عموماً اخلاقی برائیوں کو جنم دیتے ہیں۔ اسلام کے دشمن ہمیشہ مسلمانوں خصوصاً جوان نسل کی بیداری سے ڈرتے رہے ہیں، اسی لیے ان کی وسیع پیمانے پر سازشوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو طرح طرح کے بیہودہ، فضول اور لاحاصل کاموں کے ذریعے غفلت میں غرق کردیتے ہیں تاکہ لوگ جاگ نہ اٹھیں اور حق کی آواز بلند نہ کریں۔ گانا اور موسیقی ان کا ایسا حربہ اور ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئے ان کی عقل کو تباہ کرتے ہیں، اسی لیے دنیابھر کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ کا زیادہ تر وقت میوزک اور گانوں میں گزرتا ہے۔
اسلام اور انسانیت کے یہ دشمن، غنا، موسیقی اور گانوں کے ذریعے بےحیائی پھیلاتے ہیں، اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہیں، جوانوں کی طاقتور اور پروان چڑھتی ہوئی افکار کو گمراہ کردیتے ہیں، لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان پر حق کی بات کا اثر نہیں ہوتا، جبکہ ان میں واپس پلٹنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، لہذا حق کے راستے سے دور ہوجانے والا ہر شخص، ایسے خلافِ حیا کام سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے دل کی فطری پاکیزگی اور نرمی کو واپس پلٹا کر صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتا ہے۔
Add new comment