خلاصہ: مختلف مسائل میں توازن ہونا چاہیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خوف و امید کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔
انسان کے لئے جو دنیاوی نعمتیں، سہولیات اور خوشیاں فراہم ہوتی ہیں، اس سے ہٹ کر اسے آخرت کے لئے فکرمند اور خوفزدہ ہونا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے گناہ معاف نہ ہوں اور آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوجائے۔
اور دوسری طرف سے اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل پر امید رکھنی چاہیے کہ اپنی دینی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے ذریعے، اس پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہوگا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب نصیب ہوگا۔
مومن میں خوف و امید کا ایک ہی وقت میں ہونے کی ضرورت کے پیش نظر بعض روایات میں خوف و امید کی حالت کو ایمان کے شرائط میں سے شمار کیا گیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ خَائِفاً رَاجِياً وَ لَا يَكُونُ خَائِفاً رَاجِياً حَتَّى يَكُونَ عَامِلًا لِمَا يَخَافُ وَ يَرْجُو"، "مومن، مومن نہیں بنتا یہاں تک کہ خائف (اور) امید رکھنے والا بن جائے، اور خائف (اور) امید رکھنے والا نہیں بنتا یہاں تک کہ جس چیز سے خائف ہے اور امید رکھتا ہے اس پر عمل کرے"۔ [الکافی، ج۲، ص۷۱، ح۱۱]
جب لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو خوف اور امید دونوں کی طرف متوجہ کرنا چاہیے، نہ یہ کہ صرف جنت کی نعمتوں کے بارے میں امید دلائی جائے اور نہ یہ کہ صرف جہنم کے عذاب سے ڈرایا جائے، بلکہ جنت اور جہنم دونوں کا تذکرہ کرنا چاہیے تاکہ حد سے زیادہ نہ خوفزدہ ہوجائیں اور نہ حد سے زیادہ امید رکھیں، بلکہ خوف اور امید کے درمیان توازن ہو، لہذا جو شخص منبر پر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں امید دلاتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی خوف دلائے۔
قرآن کریم کی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں بشارت (خوشخبری) اور اِنذار (ڈرانا) دونوں پائے جاتے ہیں، جیسے سورہ فاطر کی آیت ۲۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيراً وَنَذِيراً"، "بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر (بشارت دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے"۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے تھے: "إنّهُ لَيس مِن عَبدٍ مؤمنٍ إلاّ [و] في قَلْبهِ نُورانِ: نورُ خِيفَةٍ و نورُ رَجاءٍ، لَو وُزِنَ ھذا لَم يَزِدْ على ھذا، و لَو وُزِنَ ھذا لَم يَزِدْ على ھذا"، "کوئی مومن بندہ نہیں ہے مگر اس کے دل میں دو نور ہیں: خوف کا نور اور امید کا نور، اگر اِسے وزن کیا جائے تو اُس سے زیادہ نہیں ہوگا اور اگر اُسے وزن کیا جائے تو اِس سے زیادہ نہیں ہوگا"۔ [الکافی، ج۲، ص۷۱، ح۱۳]
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* الکافی، شیخ کلینی، دارالکتب الاسلامیۃ، ج۲، ص۷۱، ح۱۱۔ ح۱۳۔
Add new comment