خلاصہ: اس مضمون میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث کے سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے جس میں مومن کے دو خوف کا تذکرہ ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الْمُؤْمِنُ بَيْنَ مَخافَتَيْنِ: ذَنْبٌ قَدْ مَضَى لا يَدْرِى ما صُنْعُ اللَّهُ فيه وَ عُمْرٌ قَدْ بَقِىَ لا يَدرِى ما يَكْتَسِبُ فِيهِ"، "مومن دو خوف کے درمیان ہے: گذشتہ گناہ، کہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کے بارے میں کیا کرے گا اور باقی عمر، کہ وہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا حاصل کرے گا"۔ [الکافی، ج۲، ص۷۱]
جو شخص ان دو حالتوں کی سوچ میں رہتا ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے سابقہ کی اصلاح کرے اور کوتاہیوں کا ازالہ کرے، اور ساتھ ساتھ اس سوچ میں بھی رہے کہ اپنی باقی زندگی کی فرصت سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے بہترین حل ڈھونڈے۔
یہ دونوں سوچیں آدمی اور قوم کی ترقی اور کمال کا باعث بنتی ہیں، جو لوگ نہ اپنے سابقہ اعمال کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ اپنے آئندہ کے بارے میں غور کرتے ہیں تو وہ لوگ ناکام ہوتے ہیں۔
جو انسان اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال پر حاضر و ناظر سمجھتا ہے اسے اپنے گذشتہ اور مستقبل کے بارے میں خوف محسوس ہوتا ہے۔
جس آدمی کو اپنے گذشتہ وقت کے بارے میں خوف نہ ہو اسے آئندہ کے بارے میں بھی خوف نہیں ہوتا۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ سابقہ وقت اور آنے والے وقت کے بارے میں خائف رہے اور گناہوں سے استغفار کرکے اپنے برے اعمال سے دستبردار ہوجائے اور نیک اعمال بجالائے، اپنی سابقہ غلطیوں کو نہ دہرائے اور ہر وقت کو غنیمت سمجھ کر وقت سے بہترین فائدہ اٹھائے۔
* الکافی، شیخ کلینی، ج۲، ص۷۱۔
Add new comment