خلاصہ: اللہ کی رحمت پر امید رکھنی چاہیے اور اللہ کے عذاب سے خوف ہونا چاہیے۔
خوف اور امید، دو ایسے مسائل ہیں جن کا انسان کی زندگی میں اہم کردار ہے۔ دینی تعلیمات میں، اللہ کے غضب اور سزا سے "خوف" اور اللہ کی رحمت پر "امید" رکھنا، دونوں کو اہمیت دی گئی ہے اور ان کے درمیان توازن قائم رکھنے پر تاکید کی گئی ہے۔
اگر انسان اللہ تعالیٰ پر امید رکھنے میں افراط کرے اور اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے امان میں سمجھ لے تو دنیاوی لذتوں میں ڈوب جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور آخرت کی یاد سے غافل ہوجائے گا، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی سنّت استدراج کی زد میں آجائے گا اور رفتہ رفتہ مزید گمراہ ہوتا ہوا عذاب الٰہی میں مبتلا ہوجائے گا۔
ادھر سے خوف میں افراط (یعنی حد سے زیادہ خوف)انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید کردیتا ہے، لہذا اللہ کی رحمت پر بھی امید رکھنی چاہیے، مگر اس بات پر بھی توجہ رہے کہ اللہ کی رحمت پر مناسب عمل کے بغیر امید رکھنا ایک طرح کا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔
وضاحت یہ ہے کہ خوف و امید انسان کے سب دنیاوی اور اخروی اختیاری کاموں میں اثرانداز ہے اور انسان ہر اختیاری عقلمندانہ کام کو خیر اور فائدہ تک پہنچنے کی امید سے یا نقصان کے خوف اور خطرے کی وجہ سے کرتا ہے۔
توحید کے بارے میں مومنین کی جتنی معرفت ہو وہ اتنی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی امید اور خوف، اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو۔ وہ ثواب حاصل کرنے اور گناہوں کی بخشش اور اللہ تعالیٰ کی توفیقات سے فیضیاب ہونے کی امید سے دنیاوی اور اخروی کام کرتے ہیں۔
اور ادھر سے وہ اس خوف سے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ان سے دنیاوی نعمتیں واپس نہ لے لے اور آخرت میں اس کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں، اعمال انجام دیتے ہیں۔ البتہ بعض افراد جو ایمان اور اللہ کے تقرب کے بلند درجات تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، انہیں ہر بات سے زیادہ اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے محروم نہ ہوجائیں۔
* اصل مطالب ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی۔
Add new comment