خلاصہ: ایمان کو عملی صورت اختیار کرنی چاہیے، جب ایسا ہو تو انسان گناہ سے پرہیز کرے گا۔
ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ آدمی ایمان کے تقاضے کو پورا کرے اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے اس صحیح ایمان کے مطابق عمل کرے۔ اگر عمل نہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایمان پختہ اور مضبوط نہیں ہے۔
جس طرح انسان کو تجربہ کے تحت یا طبیب کے بتانے سے یقین ہوجاتا ہے کہ کھانے کے دوران اور کھانے کے فوراً بعد پانی پینا معدے کی کمزوری کا باعث بنتا ہے اور ہاضمہ مشکل ہوجاتا ہے۔ اب اس یقین کا لازمہ یہ ہے کہ کھانے کے درمیان اور کھانے کے فوراً پانی پینے سے پرہیز کرے۔ اگر وہ پرہیز نہیں کرتا تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسے اس بات پر یقین نہیں ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ نقصان نہیں ہوگا اور اس طرح اس نقصان سے لاپرواہی کرتا ہے۔
گناہ کی مثال اسی طرح ہے، آخرت کے عذاب کے علاوہ گناہ کے دنیاوی نقصانات بھی ہیں۔ اگر انسان گناہ کے نقصانات پر یقین کرلے تو گناہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔ جو آدمی، اللہ تعالیٰ اور اہل بیت (علیہم السلام) کے احکام اور ارشادات پر ایمان رکھتا ہو تو اس ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ایمان، عملی صورت اختیار کرے اور انسان کے اعمال میں اس ایمان کے اثرات ظاہر ہوں۔ جب کہا جاتا ہے کہ گناہ نہیں کرنا چاہیے تو انسان کو حکمِ الٰہی کے سامنے تسلیم ہونا چاہیے۔
سورہ شوری کی آیت ۳۰ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ"، "اور تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے(کاموں) کی وجہ سے پہنچتی ہے اور وہ بہت سے(کاموں سے) درگزرکرتا ہے"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment