خلاصہ: قرآن کریم میں عدل اور قسط کے بارے میں کئی آیات ہیں، یہاں دو آیات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
معاشرتی اخلاق میں سب سے وسیع ترین مسئلہ اور سب سے زیادہ یقینی اقدار میں سے "عدل" کا مسئلہ ہے اور اس کے مقابلے میں "ظلم" ہے اور ان دو مسائل کے شبیہ "اصلاح" اور "اِفساد" ہیں۔
عدل کے معنی یہ ہیں کہ "حق، حقدار کو دیا جائے"۔ قرآن کریم "عدل" اور "قسط" کے عنوان سے مسلمانوں کو عدل کی یاددہائی کراتا ہے۔ عدل اور قسط دو مرادف مفہوم ہیں اور ان کا ایک ہی مطلب ہے، جیسے سورہ مائدہ کی آیت ۸ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ"، "(خبردار) کسی قوم سے دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ اور عدل سے پھر جاؤ۔ عدل کرو۔ کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ سے ڈرو بے شک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے"۔
بہت ساری آیات میں لفظ قسط بیان ہوا ہے، جیسے سورہ حدید کی آیت ۲۵ میں ارشاد الٰہی ہے: "لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ"، "یقیناً ہم نے اپنے رسولوں(ع) کو کھلی ہوئی دلیلوں (معجزوں) کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں"۔
اگر معاشرے میں عدل قائم کرنا ہو تو "حق" کے مصادیق کو پہچاننا چاہیے اور اگر حق کے مصادیق کو پہچاننا ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ لوگوں کے درمیان تعلّقات کیسے ہونے چاہئیں جو ان کی ترقی و کمال کا باعث بنیں، یعنی عدل کا معیار یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کا ایک دوسرے سے تعلق اس طرح مقرر ہو کہ ان کی ترقی و کمال کا سبب بنے۔
* ترجمه آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت الله مصباح یزدی، ج۳، ص۱۲۱۔
Add new comment