خلاصہ: صداقت کی دو قسمیں ہیں، ان دونوں لحاظ سے انسان کو سچا ہونا چاہیے۔
لفظ "صدق" قرآن کریم میں دو طرح استعمال ہوا ہے: بولنے میں سچائی اور کردار میں سچائی۔ بولنے میں سچائی یہ ہے کہ بات واقع کے مطابق ہو۔
کردار میں سچائی یہ ہے کہ انسان کے اعمال اور کردار، اس کی بات یا عقیدہ کے مطابق ہوں، یعنی انسان کا کردار اس کی بات یا عقیدہ کی تصدیق کرے، اگرچہ وہ کوئی بات نہ کرے، لہذا سچا آدمی اسے کہا جاتا ہے کہ اگر اس کا کسی بات پر عقیدہ ہے تو اپنے کردار کے مطابق عمل کرے اور اس کا مبالغہ "صدّیق" ہے۔
قرآن کریم نے بعض مقامات پر اِس سچائی کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے: "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ"(۱)، "مؤمن تو پس وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر کبھی شک نہیں کیا اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد (بھی) کیا یہی لوگ سچے ہیں"۔
واضح ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد جو اس آیت میں سچائی کی شرط ہے، اس کا بات کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ عملی طور پر اس کا پابند ہونا چاہیے۔
صدّیق وہ ہے جس کا عمل بالکل وہی عمل ہو جو اس کا ایمان طلب کرتا ہے اور اسی وجہ سے غالباً صدیق معصوم افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ معصوم سے کوئی کام دین اور ایمان کے خلاف سرزد نہیں ہوتا۔
"أُمُّهُ صِدِّيقَةٌ" (۲) جو حضرت عیسی (علیہ السلام) کی والدہ کے بارے میں استعمال ہوا ہے، حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) کی عصمت کی دلیل ہے اور "صدّیقہ" حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا ایک لقب ہے، لہذا آپؑ مقام عصمت پر فائز ہیں۔
عملی سچائی، بولنے والی سچائی سے زیادہ وسیع ہے اور اس کی وسعت بات اور انسان کے دیگر اعمال کو بھی شامل ہوتی ہے۔
* (۱) سورہ حجرات، آیت ۱۵۔
* (۲) سورہ مائدہ، آیت ۷۵۔
* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، آیت اللہ مصباح یزدی، ج۳، ص۳۳۱۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment