خلاصہ: سچائی ایسی اچھی صفت ہے جو انسان کی فطرت اور عقل کے مطابق ہے اور ہر انسان اسے پسند کرتا ہے۔
فطری طور پر ہر انسان سچائی، سچ بولنے اور سچ سننے کو پسند کرتا ہے۔ جب انسان کسی ایسے آدمی سے سامنا کرے جو صداقت اور سچائی کے عنوان سے مشہور ہو تو اس سے بات کرتے ہوئے سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے، کیونکہ اس سے گفتگو کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ جو کچھ اس نے سنا ہے وہ سچ ہے۔
سچ کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ جو شخص جھوٹ بولتا ہو وہ خود بھی لوگوں سے سچ سننا پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے والے کاضمیر اس کے اس برے کام پر اس کی مذمت کرتا ہے۔
جھوٹا شخص لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوتا ہے اور اس کا ظاہر اس کے باطن کے خلاف ہوتا ہے لہذا وہ لوگوں سے منافقت کرتا ہے، لیکن سچ بولنے والا آدمی لوگوں کی نظر میں قابل احترام اور باعزت ہوتا ہے۔ اس کی سچائی اور اس کے ظاہر سے اس کے باطن کی نشاندہی ہوتی ہے، اسی لیے اس پر لوگ اطمینان کرتے ہیں۔ سچا انسان دنیا اور آخرت میں فائدے حاصل کرتا ہے۔
سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ"، " ارشادِ قدرت ہوگا یہ وہ دن ہے کہ جس میں سچوں کی سچائی ان کو فائدہ پہنچائے گی۔ ان کے لئے ایسے بہشت ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی (دونوں ایک دوسرے سے خوش) یہی سب سے بڑی کامیابی ہے"۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "عَلیْکَ بِالْصِّدقِ، فَمَنْ صَدَقَ فی اَقوالِهِ جَلَّ قَدْرُهُ"، "سچ بولو، کیونکہ جو اپنی باتوں میں سچ بولے اس کا مقام بڑھ جاتا ہے"۔ [غرر الحكم، ص۴۴۶، ح۵۹]
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* غرر الحكم، آمدی، ص۴۴۶، ح۵۹۔
Add new comment