یہ مکافات عمل ہے جو اس طرح مسلمان ذلیل و رسوا کیے جارہے اور ہو رہے ہیں، اسلامی ممالک بس نام کے اسلامی ممالک ہیں؛ وہاں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو استعماری طاقتیں چاہتی ہیں، آج مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اسکی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے خدا کو چھوڑ دیا ہے اور کئی مجازی خدا بنا لیے ہیں، مندرجہ ذیل نوشتہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے مسلم امہ کو بیدار کرنے کے لیے۔
ابھی ایک ڈر ہمارے لیے پیدا کیا گیا تو ہم کتنے پریشان ہو گئے، اپنی دستاویزات ٹھیک کروانے کے لیے دن رات تگ و دو کرنے لگے، گھر کی پرانی دستاویزات تلاش کرنے لگے، لائن میں لگے، دھکے کھائے۔
لیکن ایک اور دن کا بھی ڈر ہے۔۔۔ جس کے بارے میں بھی ہمیں پہلے سے ہوشیار کر دیا گیا۔ «یَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ هُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غافِلُون » یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں [ سوره روم آیه 7]
موت،قبر،قیامت،حشر کا میدان،سورج کا سر پر ہونا،پل صراط کا خطرہ،کیا اس دن کے آنے میں کوئی شک ہے؟؟؟؟ يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ [ سورة القيامة۶] وہ یہ پوچھتا ہے کہ یہ قیامت کب آنے والی ہے۔
کیا ہم اس دن کے لیے اسی طرح فکر مند ہیں جیسا کہ این آر سی اور سی اے اے کے بارے میں سن کر ہو رہے ہیں؟؟؟؟؟ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [۹۹] لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ [سورة المؤمنون۱۰۰] یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے۔کیا ہم سب نے ایسی تیاری کرلی ہے کے ہماری ’’موت‘‘ اچھی ہو، کیا ہم نے یہ تیاری کر لی ہے کہ ’’قبر‘‘ میں ہمارے ساتھ آسانی کا معاملہ ہو، کیا ہم نے ’’حشرکے میدان‘‘ میں اللہ کے پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب کی تیاری کر لی ہے ؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں، تو ہمیں این آر سی اور سی اے اے سے زیادہ اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ خطرہ حق ہے اور ہو کر ہی رہے گا۔ دنیا نے ہمیں دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔
ابھی سب سوئے ہوئے ہیں، جب موت آئے گی تو جاگ جائیں گے۔۔۔ اَلنَّاسُ نِيَامٌ فَإِذَا مَاتُوا اِنْتَبَهُوا
ہم نے اس طور پر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
ابھی سب سے زیادہ ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر نامۂ اعمال کے ڈاکیومنٹ کو ٹھیک کروانے کی ہے۔
احتجاج اور ریلیوں کے بارے میں تو ہم انتظامات کر رہے ہیں لیکن کیا ہم نے اس کا بھی انتظام کیا کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر اللہ سے اجتماعی دعا کا اہتمام کریں۔ کیا اس کی ضرورت نہیں کہ اپنے اپنے علاقوں کی مسجدوں میں لوگوں کو جمع کر کے استغفار کی مجلس کروائیں اور دعا کا اہتمام کریں۔۔۔ سب معاملہ ہم نے اپنے کندھے پر لے لیا اس لیے ہمارے سر سے بوجھ کم ہونے کے بجائے مزید پریشانیاں اور بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔
ہم اپنا معاملہ اللہ کو منوا کر اس کو راضی کر کے اسی کے سپرد کر دیں، پھر دیکھیں کیسے کام بنتا ہے۔
دعاؤوں میں اپنے رب سے رو رو کر مانگیں، اللہ سب آسان کر دے گا۔ ان شاء اللہ
یہ ڈر اور خوف تو اسی لیے پیدا کیا جا رہا ہے کہ ہم اس ملک میں ڈر ڈر کر اپنی زندگی گزاریں۔
جب کہ معاملہ یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا کے ان کافروں کو دہشت میں رکھو، آج ہم نے انہیں ڈرانا چھوڑ دیا تو وہ آج ہمیں ڈرا رہیں ہے اور ہم ڈر رہیں ہیں۔ معاملہ اللہ کے حکم کے بر عکس ہے۔۔۔۔أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ ۔۔۔[سورة الأنفال ۱۲] ۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں لہٰذا تم صاحبان ایمان کو ثبات قدم عطا کرو میں عنقریب کفاّ رکے دلوں میں رعب پیداکردوں گا۔۔۔ ۔
ڈر اور خوف کی زندگی سے باہر نکلیے
اسلام نے ہمیں جینے کا سلیقہ بھی بتایا ہے اور مرنے کا انداز بھی۔
ہم اپنی تاریخ سے سبق لیں اور انہیں نقوش پر چلیں جن پر چل کے ہمارے متقدمین کامیاب و کامران ہوئے اور عزت و سرفرازی کی زندگی بسر کی۔
Add new comment