خلاصہ: امام محمد تقی(علیہ السلام) نے اپنی کمسنی ہی میں لوگوں پر یہ ظاہر کردیا تھا کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا نمائندہ ہوں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد تقی(علیہ السلام) اپنے بچپنے ہی میں منصب امامت پر فائز ہوئے،
اس وقت بغداد کے علماء اور فقھاء بہت پریشان تھے کے نویں امام، امام رضا(علیہ السلام) کے بعد ہمارا امام کون ہوگا، اس وقت لوگوں کے درمیان یہ مشھور ہورہا تھا کے امام(علیہ السلام) کے چچا عبد اللہ امام رہینگے، وہ لوگ حقیقیت کو جاننے کے لئے حج کرنے کے بعد امام صادق(علیہ السلام) کا گھر جو خالی تھا وہاں وہاں پہونچے، اس وقت امام(علیہ السلام) کے چچا عبداللہ اس گھر میں داخل ہوئے اور صدر مجلس پر جاکر بیٹھ گئے، لوگوں نے ان سے سوالات کرن شروع کیا لیکن وہ ان کے سوالات کے جوابات نہ دے سکے جس کی وجہ سے وہ لوگ بہت زیادہ غمگین ہوئےاور اسی غم و اضطراب کی حالت میں وہاں سے جانا چاہرہے تھے کہ اسی وقت وہاں پر امام محمد تقی(علیہ السلام) داخل ہوئے ان لوگوں سے کہا گیا کے ان سے اپنے سوالات کو پوچھو ان لوگوں نے وہی سوالات اما محمد تقی(علیہ السلام) سے پوچھے، امام محمد تقی(علیہ السلام) نے ان کے تمام سوالات کے انھیں صحیح جوابات دئے، وہ لوگ جوابات سننے کے بعد بہت خوش ہوئے اور امام(علیہ السلام) کو دعائیں دیں اور امام محمد تقی(علیہ السلام) کی تعریف و تمجید کی[بحار الانوارنچ، ج:۵۰، ص:۹۸ تا ۱۰۰]۔
*بحار الانور، مجلسی، دار إحياء التراث العربي, بیروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳۔
Add new comment