خلاصہ: اسول کافی کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے کنارہ کشی کے تین معنی بیان کیے جارہے ہیں۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "الصَّبرُ عَلَى الوَحدَةِ عَلامَةُ قُوَّةِ العَقلِ، فَمَن عَقَلَ عَنِ اللّه ِ تَبارَكَ وتَعالَى اعتَزَلَ أهلَ الدُّنيا وَالرّاغِبينَ فيها، و رَغِبَ فيما عِندَ اللّه ِ ، و كانَ اللّه ُ اُنسَهُ في الوَحشَةِ ، و صاحِبَهُ في الوَحدَةِ ، و غِناهُ في العَيلَةِ، و مُعِزَّهُ مِن غَيرِ عَشيرَةٍ"، "اے ہشام، تنہائی پر صبر کرنا، عقل کی قوت کی نشانی ہے، لہذا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلے وہ دنیاداروں اور اس کی طرف رغبت کرنے والوں سے کنارہ کشی کرتا ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، اس کی طرف رغبت کرتا ہے، اور اللہ وحشت میں اس کا مونس ہوتا ہے، اور تنہائی میں اس کا ساتھی ہوتا ہے، اور ضرورتمندی میں اس کی بےنیازی ہوتا ہے، اور قبیلے کے بغیر اس کو عزت دیتا ہے"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۷]
لوگوں سے کنارہ کشی اور دوری اختیار کرنا تین طرح ہوسکتا ہے:
۱۔ آدمی لوگوں میں رہے، لیکن لوگوں کے ساتھ نہ ہو۔ وہ لوگوں کے مجمع میں اور معاشرے میں زندگی بسر کرتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ جو کام لوگ کریں، وہ بھی کرے، بلکہ جب لوگ غلطی کرتے ہیں تو وہ اس غلطی سے پرہیز کرتا ہے اور لوگوں کو صحیح راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ لوگوں میں رہتا ہے، لیکن اُن کی افکار اور غلطیوں کا اثر نہیں لیتا۔ لہذا وہ لوگوں میں اکیلا ہے، یہ ایک قسم کی کنارہ کشی ہے جو بہت مشکل ہے، جیسے آدمی گرم پتھر کو ہتھیلی پر پکڑے۔
۲۔ آدمی کی برداشت اور تحمل کم ہے اور ایسا نہیں کرسکتا کہ لوگوں کے درمیان رہ کر ان سے اثر نہ لے، لہذا اپنے گھر میں ہی رہتا ہے اور گھر سے نہیں نکلتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ اگر معاشرے میں آئے تو یقیناً غلطیوں میں پڑے گا، لیکن اگر اپنے گھر میں رہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اپنے گناہوں پر گریہ کرے تو گناہ سے محفوظ رہے گا۔
۳۔ جو آدمی بیابان اور پہاڑوں میں جاکر پناہ لیتا ہے اور وہاں زندگی بسر کرتا ہے، معاشرے میں اتنی تباہ کاریاں اور خرابیاں بڑھ گئی ہیں کہ حتی اسے اپنے گھر میں بھی سکون نہیں ہے۔
لوگوں سے دوری کے کچھ فائدے یہ ہیں کہ آدمی جب لوگوں سے کنارہ کشی کرتا ہے تو ریا اور غیبت وغیرہ سے بچ جاتا ہے، لہذا اس کے گناہ کم ہوجاتے ہیں اور عبادت میں اس کا اخلاص بڑھ جاتا ہے۔
* الکافی، شیخ کلینی، دار الكتب الاسلامية، ج۱، ص۱۷۔
* ماخوذ از: بیانات استاد محسن فقیہی۔
Add new comment