خلاصہ: اسول کافی کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے اللہ کی معرفت، جو انسان کے لئے پشت پناہی کا باعث، اس پر گفتگو کی جارہی ہے۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "الصَّبرُ عَلَى الوَحدَةِ عَلامَةُ قُوَّةِ العَقلِ، فَمَن عَقَلَ عَنِ اللّه ِ تَبارَكَ وتَعالَى اعتَزَلَ أهلَ الدُّنيا وَالرّاغِبينَ فيها، و رَغِبَ فيما عِندَ اللّه ِ ، و كانَ اللّه ُ اُنسَهُ في الوَحشَةِ ، و صاحِبَهُ في الوَحدَةِ ، و غِناهُ في العَيلَةِ، و مُعِزَّهُ مِن غَيرِ عَشيرَةٍ"، "اے ہشام، تنہائی پر صبر کرنا، عقل کی قوت کی نشانی ہے، لہذا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلے وہ دنیاداروں اور اس کی طرف رغبت کرنے والوں سے کنارہ کشی کرتا ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، اس کی طرف رغبت کرتا ہے، اور اللہ وحشت میں اس کا مونس ہوتا ہے، اور تنہائی میں اس کا ساتھی ہوتا ہے، اور ضرورتمندی میں اس کی بےنیازی ہوتا ہے، اور قبیلے کے بغیر اس کو عزت دیتا ہے"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۷]
اس حدیث سے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث دنیادار اور دنیا کی طرف رغبت کرنے والے لوگوں سے جدائی اور کنارہ کشی کے بارے میں ہے۔
۲۔ صبر اور انسان کی عقل کا آپس میں تعلق پایا جاتا ہے۔
۳۔ کچھ نشانیاں ہونی چاہئیں جہاں سے واضح ہوسکے کہ یہ آدمی عقلمند ہے، اسی طرح عقل کی قوت کی بھی نشانی پائی جاتی ہے، یہ نشانی تنہائی پر صبر کرنا ہے۔
۴۔ مختلف چیزوں اور مختلف حالات پر صبر کرنا چاہیے، ان حالتوں میں سے ایک حالت تنہائی ہے جس پر انسان کو صبر کرنا چاہیے۔
۵۔ تنہائی پر صبر کرنا اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا تعلق عقل کی قوت سے ہے۔
۶۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے سے انسان دنیادار اور دنیا کی طرف رغبت کرنے والے لوگوں سے کنارہ کشی کرتا ہے، لہذا جو آدمی ایسے لوگوں سے کنارہ کشی نہیں کرتا، نہ اس کی عقل طاقتور ہے اور نہ اس کے پاس اللہ کی معرفت ہے۔
۷۔ ان فقروں میں لفظ اعتزال (کنارہ کشی)، لفظ وحدۃ (تنہائی) کے مرادف ہے۔ انسان تنہائی پر تب صبر کرتا ہے کہ اس کی عقل طاقتور ہو اور دنیادار اور دنیا کی طرف رغبت کرنے والے لوگوں سے تب کنارہ کشی کرتا ہے کہ اس نے اللہ کی معرفت حاصل کی ہو، لہذا کنارہ کشی اور تنہائی کا باہمی تعلق ہے۔
۸۔ جب اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوجائے تو دنیادار لوگوں کے علاوہ ان لوگوں سے بھی کنارہ کشی ہوجاتی ہے جو دنیا کی طرف رغبت کرنے والے ہیں، کیونکہ حضرتؑ نے کنارہ کشی کے لئے دو طرح کے لوگ بیان فرمائے ہیں۔
۹۔ انسان تب اللہ کے پاس موجود نعمتوں کی طرف رغبت کرتا ہے کہ دنیادار اور دنیا کی طرف رغبت کرنے والے لوگوں سے کنارہ کشی کرے۔
۱۰۔ جب انسان تنہائی پر صبر کرتا ہے تو اگر وہ وحشت، تنہائی اور فقر میں اور قبیلے کے بغیر ہو، مگر حقیقت میں وہ اکیلا اور تنہا نہیں ہوتا، بلکہ اللہ اس کا مونس بھی ہوتا ہے ، ساتھی بھی ہوتا ہے، بے نیازی بھی ہوتا ہے اور اسے عزت بھی دیتا ہے۔
* الکافی، شیخ کلینی، دار الكتب الاسلامية، ج۱، ص۱۷۔
Add new comment