خلاصہ: اصول کافی میں حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) اللہ کی انسانوں پر دو حجتوں کا تذکرہ فرماتے ہیں، اس مضمون میں ان دو حجتوں کے باہمی تعلق کے بارے میں چند نکات بیان کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "يَا هِشَامُ، إِنَّ لِلّهِ عَلَى النَّاسِ حُجَّتَيْنِ: حُجَّةً ظَاهِرَةً، وَ حُجَّةً بَاطِنَةً، فَأَمَّا الظَّاهِرَةُ فَالرُّسُلُ وَ الْأَنْبِيَاءُ وَ الْأَئِمَّةُ، وَ أَمَّا الْبَاطِنَةُ فَالْعُقُولُ"، "اے ہشام، یقیناً اللہ کی انسانوں پر دو حجتیں ہیں: ظاہری حجت اور باطنی حجت، ظاہری حجت رسول، انبیاء اور ائمہ ہیں، اور باطنی حجت عقلیں ہیں"۔
ان دو حجتوں کے باہمی تعلق کے بارے میں چند نکات:
۱۔ ظاہری حجت کیونکہ آنکھوں سے دیکھی جاتی ہے تو ظاہری حجت ہے اور باطنی حجت کیونکہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی تو باطنی اور چھپی ہوئی حجت ہے۔
۲۔ ظاہری حجت، باطنی حجت کے خلاف بات نہیں کرتی، بلکہ اس کے مطابق بات کرتی ہے اور اس کو بیدار کرتی ہے۔
۳۔ عقل ایسی چیز ہے جو ظاہری حجت کی حقانیت کو سمجھ کر اس کی تصدیق کرسکتی ہے، اور جس شخص کے پاس باطنی حجت یعنی عقل نہ ہو اور وہ عقل سے محروم ہو تو وہ ظاہری حجت کی تصدیق سے بھی عاجز ہوگا۔
۴۔ ظاہری اور باطنی حجتوں کا آپس میں کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ظاہری حجت باطنی حجت کی طرف انسان کو متوجہ کرتی ہے اور باطنی حجت کے ذریعے ہی ظاہری حجت کی باتوں اور سیرت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔
۵۔ اصول دین کو عقل کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے، لہذا اگر عقل حجت نہ ہو تو اصول دین کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
۶۔ انسان کی ہدایت میں اگرچہ باطنی حجت کا ہونا ضروری ہے، اس کے باوجود بھی انسان ظاہری حجت سے بے نیاز نہیں ہوسکتا اور باطنی حجت کافی نہیں ہے۔
۷۔ جب اصول دین کو عقل نے ثابت کردیا تو پھر عقل، اللہ تعالیٰ اور انبیاء اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی فرمانبرداری کا حکم دیتی ہے، لہذا مکلف ہونے اور شرعی احکام کو بجالانے کی ایک شرط، عقل ہے۔
*الکافی، الشيخ الكليني الناشر دارالكتب الاسلامية، تہران، پانچویں ایڈیشن، ۱۳۶۳ ھ.ش
Add new comment