خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی رحمت کے سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:"اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ، وَ مَهْبِطَ الْوَحْيِ، وَ مَعْدِنَ الرَّحْمَةِ"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام، اور وحی کے اترنے کا مقام، اور رحمت کا معدن (کان)"۔
اہل بیت (علیہم السلام) کی رحمت کے برسنے کی ایک اور جگہ قیامت ہے کہ اس عظیم محشر میں رحمت، شفاعت کی صورت میں ظاہر ہوگی، لیکن جیسے اللہ کی رحمت یہاں سب کے لئے ہے اور وہاں مومنین سے مخصوص ہے، اسی طرح اہل بیت (علیہم السلام) جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مظہر ہیں، ان حضراتؑ کی شفاعت ان لوگوں کو شامل ہوگی جو دنیا سے مومن ہونے کی حالت میں انتقال پائے ہوں، اگرچہ دنیا میں ان حضراتؑ کی رحمت اور کرم سب کو شامل ہوتی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے آیت "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ" (۱) کی تفسیر میں فرمایا: "رضا جدّى اَن لا يبقىٰ في النارِ مُوَحِّد"، "میرے جدّ کی رضا یہ ہے کہ آگ میں کوئی موحّد باقی نہ رہے"۔ [تفسیر نورالثقلین، ج۵، ص۵۹۵]
* (۱) سورہ ضحی، آیت ۵۔ ترجمہ: اورعنقریب آپ(ص) کا پروردگار آپ(ص) کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ(ص) خوش ہو جائینگے۔ (ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب)
* مطالب ماخوذ از: ادب فنای مقرّبان، آیت اللہ جوادی آملی، ج۱، ص۱۵۸۔
* تفسیر نورالثقلین، العروسی، ج۵، ص۵۹۵۔
Add new comment