خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا جارہا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) اللہ کی رحمت کے معدن ہیں۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:"اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ، وَ مَهْبِطَ الْوَحْيِ، وَ مَعْدِنَ الرَّحْمَةِ"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام، اور وحی کے اترنے کا مقام، اور رحمت کا معدن (کان)"۔
مَعدن، عَدْن کا اسم مکان ہے۔ اس کے معنی ہیں: استقرار (ٹھہرنا) الفت، خوشی اور رضامندی کے ساتھ۔ اسی لیے کسی قسم کا اکراہ اور بے رغبت ہونا دونوں طرف سے مستقِرّ اور مستقَرّ کی طرف سے نہیں ہوتا، لہذا جنت کو جنات عدن کہا جاتا ہے کیونکہ اولاً جنتیوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے "مَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ " [سورہ توبہ، آیت ۷۲] اور ثانیاً یہ ٹھہرنا دلچسپی اور رغبت کے ساتھ ہے۔
رحمت کے معنی لغت کی کتب میں رقّت، رافت، لطف، رفق، عطوفت، حبّ، شفقت، خیرخواہی، ہمدردی اور ان جیسے معانی بتائے گئے ہیں۔
لیکن یہ رحمت سے پہلے والے مراحل اور اس کے مقدمات ہیں، کیونکہ انسان دل کو دُکھانے والا اور غم انگیز منظر دیکھ کر رقّت کرتا ہے (اس کا دل نرم ہوجاتا ہے)، اس سے متاثر ہوتا ہے اور اس نفسانی تاثر کے بعد کچھ عطوفت اور رافت دکھاتا ہے اور مصیبت زدہ آدمی پر تفضّل کرتا ہے۔ اس تفضل کو رحمت کہا جاتا ہے، لیکن رحمت کی نسبت اگر اللہ سے دی جائے تو خود تفضّل اور عطوفت کے معنی میں ہے، لہذا رقّت اور دیگر مقدمات جو نفسانی تاثر ہیں، ان کی اللہ سے نسبت نہیں دی جاتی۔
بنابریں رحمت کا جامع معنی جس کی اللہ سے بھی نسبت دی جاسکتی ہے اور مخلوق سے بھی، وہی "ضرورتمندوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے عطا کرنا اور فیض دینا" ہے۔ لہذا اللہ کی ہر بے انتہا نعمت جیسے رسالت، امامت، شریعت، کتاب اور ان جیسی نعمتیں جن کا انسان کی ہدایت میں کردار ہے، وہ اللہ کی رحمت کا مصداق ہیں۔ [ماخوذ از: فنای ادب مقرّبان، ج۱، ص۱۵۹]
* ماخوذ از: فنای ادب مقرّبان، ج۱، ص۱۵۹، آیت اللہ جوادی آملی۔
Add new comment