خلاصہ: خدواند متعال عادل ہے اگر وہ صرف اپنے عدل کے اعتبارسے لوگوں کا فیصلہ کرنے لگے تو اکثر انسان واصل جھنم ہونگے، لیکن وہ اکثر اوقت اپنے عدل کے بچائے فضل سے کام لیتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی کے بہت زیادہ اسماء اور صفات ہیں، جن میں سے ایک اسکا عادل ہونا ہے یعنی وہ اپنے دقیق معیار کے اعتبار سے حساب و کتاب کرتا ہے، اسی معیار پر معاف کرتا ہے اور بخشتا ہے اور اسی معیار پر سزا اور عذاب دیتا ہے،
عدل کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اور صفت فضل ہے جو عدل پر بخشش کے لحاظ سے برتری رکھتی ہے، جہاں تک ممکن ہے خدا اپنے بندوں پر فضل اور بخشش سے کام لیتا ہے کیونکہ وہ بندوں کو جھنم کی آگ سے نجات دلانا چاہتا ہے، خداوند عالم نے قرآن مجید میں کئی دفعہ اسکی طرف اشارہ کیا ہے کہ میرا فضل تم لوگوں پر بہت زیادہ ہے مگر تم لوگ شکر کرنے والے نہیں ہو، جیسا کہ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے: «إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ[سورۂ بقرہ، آیت:۲۴۳] خدا لوگوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکریہ نہیں ادا کرتے ہیں»، اور دوسری جگہ ارشاد فرما رہا ہے: «فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ[سورۂ بقرہ، آیت:۶۴] اگر فضل خدا اور رحمت الٰہی شامل حال نہ ہوتی تو تم خسارہ والوں میں سے ہوجاتے»،
اگر بندوں پر خدا کا فضل نہ ہوتا تو وہ لوگ ہدایت کے قابل نہ ہوتے اور ہدایت کے قابل نہ ہوتے تو شیطان کی پیروی کرتے اور اگر شیطان کی پیروی کرتے تو یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے۔
Add new comment