انسان اپنی زندگی کے مراحل میں کئی دشواریوں پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے اور پھر ان سے کامیابی کے ساتھ باہر آجانے کے بعد دو طرح کے مسائل کا شکار ہوتا ہے یا تو ٹوٹ جاتا ہے یا سرخرو ہوتا ہے۔
بہت کوشش اور محنت کے بعد انسان ترقی حاصل کرتا ہے چاہے وہ ترقی ظاہری ہو یا روحانی کسی بھی مقام و مرتبہ تک پہنچنے کے لیے محنت اصل شرط ہے بغیر محنت کے انسان ترقی نہیں کرسکتا یا محال ہے کہ ترقی کرپائے کیونکہ ترقی اور کامیابی محنت اور لگن سے ہی وابستہ اور یہ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں، لیکن اپنی محنت کو کافی سمجھنا اور اسی کے بل بوتے پر بڑے بڑے دعوے کرنا اور سارا کریڈیٹ اپنی محنت و کوشش اور لگن کو ہی دے دینا اور اپنے عمل کو زیادہ سمجھنا اور اس طرح غرور میں مبتلا ہوکر اپنی رائے کو ہی سب سے بہتر سمجھنا کہیں کی عقلمندی نہیں ہے اور ہمیشہ تواضع کے باب کو اپنے سامنے کھلا رکھنا چاہیئے، امام باقر (ع) فرماتے ہیں: ثَلاَثٌ قَاصِمَاتُ اَلظَّهْرِ رَجُلٌ اِسْتَكْثَرَ عَمَلَهُ وَ نَسِيَ ذُنُوبَهُ وَ أُعْجِبَ بِرَأْيِهِ؛ تین چیزیں انسان کو ترقی سے روک دیتی ہیں: اپنے عمل کو زیادہ سمجھنا، اپنے گناہوں کو بھول جانا، اپنی رائے کو سب سے بہتر سمجھنا۔ [ تحف العقول، جلد 1، صفحه 282] ساری محنت اور کوشش کے باوجود انسان کی کمر یہ تین چیزیں توڑ ڈالتی ہیں ایک یہ کہ انسان اپنے عمل اور کام کو سب سے زیادہ سمجھے اور کہے کہ میں بہت محنت کرتا ہوں میرے جتنا کام کرنے والا کوئی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ گویا پھیکم پھاک ماچائے، دوسرے اپنے گناہوں کو بھول جانا یعنی اپنی خطاؤں کو نظر انداز کرنا اور انکا پاس و لحاظ نہ رکھنا اور معافی کی عادت نہ پالنا بھی انسان کی ترقی میں حائل ہے، تیسرے یہ کہ اپنے آپ کو طرّم خان سمجھتے ہوئے کسی کے احترام کا قائل نہ ہونا اور اپنی ہی بات کو حرف آخر سمجھا انسان کو برباد کردیتا ہے اس لیے ہمیں ان سب چیزوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔
منبع: تحف العقول عن آل الرسول علیهم السلام، الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة الحراني، مؤسسة الأعلمي-بيروت،1423هـ-2002م
Add new comment