خلاصہ: اصول کافی کی اس حدیث کی تشریح بیان کی جارہی ہے جو حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے ہشام کو ارشاد فرمائی۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "یا هِشَامُ، مَنْ سَلَّطَ ثَلَاثاً عَلَى ثَلَاثٍ، فَكَأنَّمَا أَعَانَ عَلَى هَدْمِ عَقْلِهِ: مَنْ أَظْلَمَ نُورَ تَفَكُّرِهِ بِطُولِ أَمَلِهِ، وَ..."، "اے ہشام، جس شخص نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلّط کردیا تو ایسا ہے جیسے اس نے اپنی عقل کو تباہ کرنے پر مدد کی: جو شخص اپنی طویل آرزو کے ذریعے اپنے تفکّر کے نور کو بجھا دے، اور..." [الکافی، ج۱، ص۱۷]
وضاحت:
انسان کی آرزوؤں کی حد نہیں ہے، اسی لیے انسان جس قدر اپنی آرزوؤں کو طویل کرتا جائے، اتنی ہی وہ بڑھتی جائیں گی اور پھر انسان کسی مرحلہ تک نہیں رکے گا۔ جب آرزو حد سے گزر جائے تو انسان دنیاوی لحاظ سے مسلسل مشکل اور تکلیف میں پڑجاتا ہے اور دن رات اپنی اس خیالی آرزو تک پہنچنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے اور جب تک اسے حاصل نہیں کرپاتا تب تک اسی کی سوچ میں لٹکا رہتا ہے، یہ لٹکے رہنا درحقیقت وہی محدود ہوجانا ہے، اس محدودیت کی وجہ سے انسان حقیقی مسائل کے بارے میں غور نہیں کرسکتا، ایک عظیم حقیقی مسئلہ آخرت کی یاد ہے۔ حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "طُولُ الأَمَلِ فَيُنْسِي الآخِرَةَ"، "آرزو کا طویل ہونا آخرت کو بھلا دیتا ہے"۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۴۲]
طویل آرزوئیں انسان کو اس قدر اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں اور تخیّلات کی دنیا میں غرق کردیتی ہیں کہ انسان اپنی حقیقی زندگی اور صحیح مقصد کو فراموش کردیتا ہے۔
لہذا طویل آرزو انسان کے غوروخوض کے سامنے رکاوٹ بن جاتی ہے اور انسان نہ دنیا میں سکون سے زندگی گزار سکتا ہے اور نہ آخرت کے بارے میں تفکر کرتے ہوئے صحیح راستے پر چل سکتا ہے۔
* الکافی، شیخ کلینی، ج۱، ص۱۷۔
* نہج البلاغہ، خطبہ ۴۲۔
Add new comment